إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُم مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ
جن لوگوں نے تہمت [١٢] کی باتیں کیں وہ تم میں سے ایک ٹولہ ہے۔ اسے تم اپنے لئے برا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ جس نے اس میں جتنا حصہ لیا [١٣] اتنا ہی گناہ کمایا اور ان میں سے جو شخص اس تہمت کے بڑے حصہ کا [١٤] ذمہ دار بنا اس کے لئے عذاب عظیم ہے۔
1- إِفْكٌ سے مراد وہ واقعہ إِفْكٌ ہے جس میں منافقین نے حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کے دامن عفت وعزت کو داغ دار کرنا چاہا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کی براءت نازل فرما کر ان کی پاک دامنی اور عفت کو واضح تر کردیا۔ مختصراً یہ واقعہ یوں ہے کہ حکم حجاب کے بعد غزوۂ بنی المصطلق (مریسیع) سے واپسی پر نبی کریم (ﷺ) اور صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نے مدینہ کے قریب ایک جگہ قیام فرمایا، صبح کو جب وہاں سے روانہ ہوئے تو حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کا ہودج بھی، جو خالی تھا، اہل قافلہ نے یہ سمجھ کر اونٹ پر رکھ دیا کہ ام المومنین (رضی الله عنہا) اس کے اندر ہی ہوں گی۔ اور وہاں سے روانہ ہوگئے، درآں حالیکہ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) اپنے ہار کی تلاش میں باہر گئی ہوئی تھیں، جب واپس آئیں تو دیکھا کہ قافلہ چلا گیا۔ تو یہ سوچ کر وہیں لیٹ رہیں کہ جب ان کو میری غیر موجودگی کا علم ہوگا تو تلاش کے لئے واپس آئیں گے۔ تھوڑی دیر بعد صفوان بن معطل سلمی (رضی الله عنہ) آگئے، جن کی ذمہ داری یہی تھی کہ قافلے کی رہ جانے والی چیزیں سنبھال لیں۔ انہوں نے حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کو حکم حجاب سے پہلے دیکھا ہوا تھا۔ انہیں دیکھتے ہی انا للہ الخ پڑھا اور سمجھ گئے قافلہ غلطی سے یا بےعلمی میں حضرت ام المومنین (رضی الله عنہا) کو یہیں چھوڑ کر آگے چلا گیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے انہیں اپنے اونٹ پر بٹھایا اور خود نکیل تھامے پیدل چلتے قافلے کو جاملے۔ منافقین نے جب حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کو اس طرح بعد میں اکیلے حضرت صفوان (رضی الله عنہ) کےساتھ آتے دیکھا تو اس موقع کو بہت غنیمت جانا اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے کہا کہ یہ تنہائی اور علیحدگی بے سبب نہیں اور یوں انہوں نے حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کو حضرت صفوان (رضی الله عنہ) کے ساتھ مطعون کردیا، دراں حالیکہ دونوں ان باتوں سے یکسر بےخبر تھے۔ بعض مخلص مسلمان بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہوگئے، مثلاً حضرت حسان (رضی الله عنہ) ، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش (رضی الله عنہم) (اس واقعہ کی پوری تفصیل صحیح احادیث میں موجود ہے) نبی کریم (ﷺ) نے پورے ایک مہینے تک، جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے براءت نازل نہیں ہوئی، سخت پریشان رہے اور حضرت عائشہ (رضی الله عنہ) لاعلمی میں اپنی جگہ بےقرار ومضطرب۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اسی واقعے کو اختصار وجامعیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ إِفْكٌ کے معنی ہیں کسی چیز کو الٹا دینا۔ اس واقعے میں بھی چونکہ منافقین نے معاملے کو الٹا دیا تھا یعنی حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) تو ثنا وتعریف کی مستحق تھیں، عالی نسب اور رفعت کردار کی مالک تھیں نہ کہ قذف کی۔ لیکن ظالموں نے اس پیکر عفت کو اس کے برعکس طعن اور بہتان تراشی کا ہدف بنا لیا۔ 2- ایک گروہ اور جماعت کو عصبہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کی تقویت اور عصبیت کا باعث ہوتے ہیں۔ 3- کیونکہ اس سے ایک تو تمہیں کرب اور صدمے کے سبب ثواب عظیم ملے گا، دوسرے آسمانوں سے حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کی براءت سے ان کی عظمت شان اور ان کے خاندان کا شرف وفضل نمایاں تر ہوگیا، علاوہ ازیں اہل ایمان کے لئے اس میں عبرت و موعظت کے اور کئی پہلو ہیں۔ 4- اس سے مراد عبداللہ بن ابی منافق ہے جو اس سازش کا سرغنہ تھا۔