سورة البقرة - آیت 265

وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جو لوگ اللہ کی رضا جوئی اور اپنی پوری دلجمعی کے ساتھ اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی بلند زمین پر ایک باغ ہو کہ اگر اس پر زور کا مینہ برسے [٣٨١] تو دگنا پھل لائے اور اگر زور کا مینہ نہ برسے تو پھوار (ہی کافی ہوتی ہے) اور جو کام تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہ ان اہل ایمان کی مثال ہے جو اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتے ہیں، ان کا خرچ کیا ہوا مال اس باغ کی مانند ہے جو پرفضا اور بلند چوٹی پر ہو، کہ اگر زوردار بارش ہو تو اپنا پھل دگنا دے ورنہ ہلکی سی پھوار اور شبنم بھی اس کو کافی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ان کے نفقات بھی، چاہے کم ہو یا زیادہ، عنداللہ کئی کئی گنا اجر وثواب کے باعث ہوں گے جَنَّةٌ اس زمین کو کہتے ہیں جس میں اتنی کثرت سے درخت ہوں جو زمین کو ڈھانک لیں یا وہ باغ، جس کے چاروں طرف باڑھ ہو اور باڑھ کی وجہ سے باغ نظروں سے پوشیدہ ہو۔ یہ جن سے ماخوذ ہے، جن اس مخلوق کا نام ہے جو نظر نہیں آتی، پیٹ کے بچے کو جنین کہا جاتا ہے کہ وہ بھی نظر نہیں آتا، دیوانگی کو جنون سے تعبیر کرتے ہیں کہ اس میں بھی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ اور جنت کو بھی اس لئے جنت کہتے ہیں کہ وہ نظروں سے مستور ہے۔ ربوۃ اونچی زمین کو کہتے ہیں۔ وابل تیز بارش۔