سورة الأنبياء - آیت 18

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بلکہ (۔۔) ہم باطل [١٥] پر حق کی ضرب لگاتے ہیں تو حق باطل کا بھیجا نکال دیتا ہے اور باطل شکست کھا کر بھاگ اٹھتا ہے اور تمہارے لئے ہلاکت ہے ان باتوں کی وجہ سے جو تم بیان کرتے ہو۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی تخلیق کائنات کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ یہاں حق و باطل کی جو معرکہ آرائی اور خیرو شر کے درمیان جو تصادم ہے، اس میں ہم حق اور خیر کو غالب اور باطل اور شر کو مغلوب کریں چنانچہ ہم حق کو باطل پر یا سچ کو جھوٹ پر یا خیر کو شر پر مارتے ہیں، جس سے باطل، جھوٹ اور شر کا بھیجہ نکل جاتا ہے اور چشم زدن میں وہ نابود ہو جاتا ہے۔ دَمْغٌ سر کی ایسی چوٹ کو کہتے ہیں جو دماغ تک پہنچ جائے، زَهَقَ کے معنی، ختم یا ہلاک وتلف ہوجانے کے ہیں۔ 2- یعنی رب کی طرف سے تم جو بےسروپا باتیں منسوب کرتے یا اس کی بابت باور کراتے ہو، (مثلاً یہ کائنات ایک کھیل ہے، ایک کھلنڈرے کا شوق فضول ہے وغیرہ) یہ تمہاری ہلاکت کا باعث ہے۔ کیونکہ اسے کھیل تماشہ سمجھنے کی وجہ سے تم حق سے گریز اور باطل کو اختیار کرنے میں کوئی تامل اور خوف محسوس نہیں کرتے، جس کا نتیجہ بالآخر تمہاری بربادی اور ہلاکت ہی ہے۔