سورة طه - آیت 111

وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ ۖ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

سب چہرے اس زندہ و پائندہ ہستی کے سامنے جھک جائیں گے اور جس نے ظلم کا بوجھ اٹھایا۔ وہ نامراد ہوا

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس لئے کہ اس روز اللہ تعالٰی مکمل انصاف فرمائے گا اور ہر صاحب حق کو اس کا حق دلائے گا۔ حتٰی کہ اگر ایک سینگ والی بکری نے بغیر سینگ والی بکری پر ظلم کیا ہوگا، تو اس کا بھی بدلہ دلایا جائے گا۔ (صحيح مسلم ، كتاب البر، مسند أحمد، ج 2، ص235)، اسی لئے نبی (ﷺ) نے اسی حدیث میں یہ بھی فرمایا [لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقَ إِلَى أَهْلِهَا]، ”ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دو ورنہ قیامت کو دینا پڑے گا“۔ دوسری حدیث میں فرمایا [إِيَّاكُمْ وَالظُّلْمَ؛ فَإِنَّ الظُّلْمَ؛ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ] ( صحيح مسلم، كتاب مذكور، باب تحريم الظلم )، ”ظلم سے بچو اس لئے کہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہوگا“، سب سے نامراد وہ شخص ہوگا جس نے شرک کا بوجھ بھی لاد رکھا ہوگا، اس لئے کہ شرک ظلم عظیم بھی ہے اور ناقابل معافی بھی۔