سورة طه - آیت 88

فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ فَقَالُوا هَٰذَا إِلَٰهُكُمْ وَإِلَٰهُ مُوسَىٰ فَنَسِيَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

پھر وہ اس (ڈھلے ہوئے سونے سے) ایک بچھڑے کا جسم بنا لایا جس سے بیل کی سی [٦١] آواز نکلتی تھی وہ لوگ کہنے لگے تمہارا اور موسیٰ کا الٰہ تو یہی ہے، موسیٰ تو بھول گیا (جو طور پر چلا گیا)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- زِينَةٌ سے زیورات اور الْقَوْمِ سے قوم فرعون مراد ہے۔ کہتے ہیں یہ زیورات انہوں نے فرعونیوں سے عاریتًا لئے تھے، اسی لئے انہیں أَوْزَارٌ وِزْرٌ ( بوجھ) کی جمع، کہا گیاہے، کیونکہ یہ ان کے لئے جائز نہیں تھے، چنانچہ انہیں جمع کر کے ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا، سامری نے بھی (جو مسلمانوں کے بعض گمراہ فرقوں کی طرح) گمراہ تھا ، کچھ ڈالا، (اور وہ مٹی تھی جیسا کہ آگے صراحت ہے) پھر اس نے تمام زیورات کو تپا کر ایک طرح بچھڑا بنا دیا کہ جس میں ہوا کے اندر باہر آنے جانے سے ایک قسم کی آواز پیدا ہوتی تھی۔ اس آواز سے اس نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا کہ موسیٰ (عليہ السلام) تو گمراہ ہوگئے ہیں کہ وہ اللہ سے ملنے کے لئے طور پر گئے ہیں، جبکہ تمہارا اور موسیٰ (عليہ السلام) کا معبود تو یہ ہے۔