الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
طلاق (رجعی) [٣٠٧] دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح سے اپنے پاس رکھا جائے یا بھلے طریقے [٣٠٨] سے اسے رخصت کردیا جائے اور تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ جو کچھ تم انہیں [٣٠٩] دے چکے ہو، اس میں سے کچھ واپس لے لو۔ الا یہ کہ دونوں میاں بیوی اس بات سے ڈرتے ہوں کہ وہ اللہ کی حدود کی پابندی [٣١٠] نہ کرسکیں گے۔ ہاں اگر وہ اس بات سے ڈرتے ہوں کہ اللہ کی حدود کی پابندی نہ کرسکیں گے تو پھر عورت اگر کچھ دے دلا کر اپنی گلوخلاصی کرا لے [٣١١] تو ان دونوں پر کچھ گناہ نہیں۔ یہ ہیں اللہ کی حدود، ان سے آگے نہ بڑھو۔ اور جو کوئی اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں
* یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو (عدت کے اندر) رجوع کا حق حاصل ہے، وہ دو مرتبہ ہے، پہلی طلاق کے بعد بھی اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع ہوسکتا ہے۔ تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع کی اجازت نہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں یہ حق طلاق ورجوع غیر محدود تھا جس سے عورتوں پر بڑا ظلم ہوتا تھا، آدمی بار بار طلاق دے کر رجوع کرتا رہتا تھا، اس طرح اسے نہ بساتا تھا، نہ آزاد کرتا تھا۔ اللہ نے اس ظلم کا راستہ بند کردیا۔ اور پہلی یا دوسری مرتبہ سوچنے اور غور کرنے کی سہولت سے محروم بھی نہیں کیا۔ ورنہ اگر پہلی مرتبہ کی طلاق میں ہی ہمیشہ کے لئے جدائی کا حکم دے دیا جاتا تو اس سے پیدا ہونے والی معاشرتی مسائل کی پیچیدگیوں کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے”طَلْقَتَانِ“ (دو طلاقیں) نہیں فرمایا، بلکہ الطَّلاقُ مَرَّتَانِ (طلاق دو مرتبہ) فرمایا، جس سے اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا کہ بیک وقت دو یا تین طلاقیں دینا اور انہیں بیک وقت نافذ کر دینا حکمت الٰہیہ کے خلاف ہے۔ حکمت الٰہیہ اسی بات کی مقتضی ہے کہ ایک مرتبہ طلاق کے بعد (چاہے وہ ایک ہو یا کئی ایک) اور اسی طرح دوسری مرتبہ طلاق کے بعد (چاہے وہ ایک ہو یا کئی ایک) مرد کو سوچنے سمجھنے اور جلد بازی یا غصے میں کئے گئے کام کے ازالے کا موقع دیا جائے، یہ حکمت ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق رجعی قرار دینے میں ہی باقی رہتی ہے، نہ کہ تینوں کو بیک وقت نافذ کرکے سوچنے اور غلطی کا ازالہ کرنے کی سہولت سے محروم کردینے کی صورت میں، (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : کتاب مجموعہ مقالات علمیہ بابت۔ ایک مجلس کی تین طلاق)۔ اور (اختلاف امت اور صراط مستقیم)۔ نیز معلوم ہونا چاہیے کہ بہت سے علما ایک مجلس کی تین طلاقوں کے واقع ہونے ہی کا فتویٰ دیتے ہیں۔ ** یعنی رجوع کرکے اچھے طریقے سے اسے بسانا۔ *** یعنی تیسری مرتبہ طلاق دے کر۔ **** اس میں خلع کا بیان ہے، یعنی عورت خاوند سے علیحدگی حاصل کرنا چاہے تو اس صورت میں خاوند عورت سے اپنا دیا ہوا مہر واپس لے سکتا ہے۔ خاوند اگر علیحدگی قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو تو عدالت خاوند کو طلاق دینے کا حکم دے گی اور اگر وہ اسے نہ مانے تو عدالت نکاح فسخ کردے گی۔ گویا خلع بذریعہ طلاق بھی ہوسکتا ہے اور بذریعہ فسخ بھی۔ دونوں صورتوں میں عدت ایک حیض ہے (ابوداود، ترمذی، نسائی والحاکم۔ فتح القدیر) عورت کو یہ حق دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی سخت تاکیدکی گئی ہے کہ عورت بغیر کسی معقول عذر کے خاوند سے علیحدگی یعنی طلاق کا مطالبہ نہ کرے۔ اگر ایسا کرے گی تو نبی (ﷺ) نے ایسی عورتوں کے لئے یہ سخت وعید بیان فرمائی ہے کہ وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائیں گی۔ (ابن کثیر وغیرہ )