سورة مريم - آیت 32

وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور یہ بھی کہ میں اپنی والدہ سے بہتر سلوک کرتا رہوں۔ نیز اللہ نے مجھے جابر اور بدبخت نہیں بنایا۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- صرف والدہ کے ساتھ حسن سلوک کے ذکر سے بھی واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی ولادت بغیر باپ کے ایک اعجازی شان کی حامل ہے، ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ لسلام بھی، حضرت یحیٰی (عليہ السلام) کی طرح ﴿بَرًّا بِوَالِدَيْهِ﴾ (ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا) کہتے، یہ نہ کہتے کہ میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔ 2- اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ماں باپ کا خدمت گزار اور اطاعت شعار نہیں ہوتا، اس کی فطرت میں سرکشی اور قسمت میں بد بختی لکھی ہے، حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) نے ساری گفتگو ماضی کے صیغوں میں کی ہے حالاں کہ ان تمام باتوں کا تعلق مستقبل سے تھا، کیونکہ ابھی تو وہ شیر خوار بچے ہی تھے۔ یہ اس لئے کہ یہ اللہ کی تقدیر کے اٹل فیصلے تھے کہ گو ابھی یہ معرض ظہور میں نہیں آئے تھے لیکن ان کا وقوع اس طرح یقینی تھا جس طرح کے گزرے ہوئے واقعات شک وشبہ سے بالا ہوتے ہیں۔