سورة الكهف - آیت 37

قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اس کے ساتھی نے گفتگو کے دوران اسے کہا : ’’ کیا تو اس ذات کا [٣٧] انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے، پھر نطفہ سے پیدا کیا، پھر تجھے پورا آدمی بنا دیا‘‘

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس کی یہ باتیں سن کر اس کے مومن ساتھی نے اس کو وعظ وتبلیغ کے انداز میں سمجھایا کہ تو اپنے خالق کے ساتھ کفر کا ارتکاب کر رہا ہے جس نے تجھے مٹی اور قطرہ پانی سے پیدا کیا ابو البشر حضرت آدم (عليہ السلام) چونکہ مٹی سے بنائے گئے تھے اس لیے انسانوں کی اصل مٹی ہی ہوئی، پھر قریبی سبب وہ نطفہ بنا جو باپ کی صلب سے نکل کر رحم مادر میں گیا وہاں نو مہینے اس کی پرورش کی پھر اسے پورا انسان بنا کر ماں کے پیٹ سے نکالا بعض کے نزدیک مٹی سے پیدا ہونے کا مطلب ہے کہ انسان جو خوراک کھاتا ہے وہ سب زمین سے یعنی مٹی سے ہی حاصل ہوتی ہے اسی خوراک سے وہ نطفہ بنتا ہے جو عورت کے رحم میں جا کر انسان کی پیدائش کا ذریعہ بنتا ہے یوں بھی ہر انسان کی اصل مٹی ہی قرار پاتی ہے ناشکرے انسان کو اس کی اصل یاد دلا کر اسے اس کے خالق اور رب کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ تو اپنی حقیقت اور اصل پر غور کر اور پھر رب کے ان احسانات کو دیکھ کہ تجھے اس نے کیا کچھ بنا دیا اور اس عمل تخلیق میں کوئی اس کا شریک اور مددگار نہیں ہے یہ سب کچھ کرنے والا صرف اور صرف وہ اللہ تعالٰی ہی ہے جس کو ماننے کے لیے تو تیار نہیں ہے آہ، کس قدر یہ انسان ناشکرا ہے؟۔