قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا
آپ ان سے کہئے کہ : اللہ (کہہ کر) پکارو یا رحمٰن [١٢٨] (کہہ کر) جو نام بھی تم پکارو گے اس کے سب نام ہی اچھے ہیں۔ اور آپ اپنی نماز نہ زیادہ بلند آواز [١٢٩] سے پڑھئے نہ بالکل پست آواز سے بلکہ ان کے درمیان اوسط درجہ کا لہجہ اختیار کیجئے۔
1- جس طرح کہ پہلے گزر چکا ہے کہ مشرکین مکہ کے لئے اللہ کا صفتی نام ”رحمٰن“ یا ”رحیم“ نامانوس تھا اور بعض آثار میں آتا ہے کہ بعض مشرکین نے نبی (ﷺ) کی زبان مبارک سے یا رحمٰن و رحیم کے الفاظ سنے تو کہا کہ ہمیں تو یہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ کو پکارو اور خود دو معبودوں کو پکار رہا ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) 2- اس کی شان نزول میں حضرت ابن عباس (رضی الله عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ مکے میں رسول اللہ (ﷺ) چھپ کر رہتے تھے، جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تو آواز قدرے بلند فرما لیتے، مشرکین قرآن سن کر قرآن کو اور اللہ کو گالی گلوچ کرتے، اللہ تعالٰی نے فرمایا، اپنی آواز کو اتنا اونچا نہ کرو کہ مشرکین سن کر قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ آواز اتنی پست کرو کہ صحابہ (رضی الله عنہم) بھی نہ سن سکیں( البخاری- التوحيد، باب قول الله تعالى ﴿ أَنْزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلَائِكَةُ يَشْهَدُونَ ﴾- ومسلم، الصلاة، باب التوسط في القراءة )، خود نبی (ﷺ) کا واقعہ ہے کہ ایک رات نبی (ﷺ) کا گزر حضرت ابو بکر صدیق (رضی الله عنہ) کی طرف سے ہوا تو وہ پست آواز سے نماز پڑھ رہے ہیں، پھر حضرت عمر (رضی الله عنہ) کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تو وہ اونچی آواز سے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ (ﷺ) نے دونوں سے پوچھا تو حضرت ابو بکر صدیق (رضی الله عنہ)نے فرمایا میں جس سے مصروف مناجات تھا، وہ میری آواز سن رہا تھا، حضرت عمر (رضی الله عنہ) نے جواب دیا کہ میرا مقصد سوتوں کو جگانا اور شیطان کو بھگانا تھا۔ آپ نے صدیق اکبر (رضی الله عنہ) سے فرمایا ”اپنی آواز قدرے بلند کرو“ اور حضرت عمر (رضی الله عنہ) سے کہا ”اپنی آواز کچھ پست رکھو“ ( مشكاة باب صلاة الليل، بحوالہ أبو داود ترمذي )۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (بخاری و مسلم، بحوالہ فتح القدیر)