سورة الإسراء - آیت 52

يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جس دن وہ تمہیں بلائے گا تو تم اس کی تعریف کرتے ہوئے [٦٣] پکار کے جواب میں حاضر ہوجاؤ گے اور یہ خیال کر رہے ہوگے کہ تم (دنیا میں) تھوڑی ہی دیر ٹھہرے تھے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- ”بلائے گا“ کا مطلب ہے قبروں سے زندہ کر کے اپنی بارگاہ میں حاضر کرے گا، تم اس کی حمد کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے یا اسے پہچانتے ہوئے اس کے پاس حاضر ہو جاؤ گے۔ 2- وہاں یہ دنیا کی زندگی بالکل تھوڑی معلوم ہوگی۔ ﴿كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا﴾۔ (النازعات:46) ۔ ”جب قیامت کو دیکھ لیں گے، تو دنیا کی زندگی انہیں ایسے لگے گی گویا اس میں ایک شام یا ایک صبح رہے ہیں“، اسی مضمون کو دیگر مقامات میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ طہٰ 102، 104۔ الروم 55۔ المؤمنون 112، 114۔ بعض کہتے ہیں کہ پہلا نفخہ ہوگا تو سب مردے قبروں میں زندہ ہو جائیں گے۔ پھر دوسرے نفخے پر میدان محشر میں حساب کتاب کے لئے اکٹھے ہونگے۔ دونوں نفخوں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہوگا اور اس فاصلے میں انہیں کوئی عذاب نہیں دیا جائے گا، وہ سو جائیں گے۔ دوسرے صور پر اٹھیں گے تو کہیں گے ”افسوس، ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایاہے؟“ (سورۂ یس:52) (فتح القدیر) پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔