وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِم مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِن دَابَّةٍ وَلَٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ
اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے ظلم کی بنا پر پکڑنے لگتا تو زمین پر کوئی جاندار مخلوق باقی نہ رہ جاتی [٥٨] لیکن وہ ایک معین عرصہ تک ڈھیل دیئے جاتا ہے پھر جب وہ مدت آجاتی ہے تو (اللہ کا عذاب ان سے) گھڑی بھر کے لئے بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا
1- یہ اس کا حلم ہے اور اس کی حکمت و مصلحت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی نافرمانیاں دیکھتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی نعمتیں سلب کرتا ہے نہ فوری مواخذہ ہی کرتا ہے حالانکہ اگر ارتکاب معصیت کے ساتھ ہی وہ مواخذہ کرنا شروع کر دے تو ظلم اور معصیت اور کفر اور شرک اتنا عام ہے کہ روئے زمین پر کوئی جاندار باقی نہ رہے کیونکہ جب برائی عام ہو جائے تو پھر عذابِ عام میں نیک لوگ بھی ہلاک کر دیئے جاتے ہیں تاہم آخرت میں وہ عند اللہ سرخرو رہیں گے جیسا کہ حدیث میں وضاحت آتی ہے۔ (ملاحظہ ہو صحیح بخاری، حدیث نمبر 2118، ومسلم، حدیث نمبر2206، 2210)۔ 2- یہ اس کی حکمت کا بیان ہے جس کے تحت وہ ایک خاص وقت تک مہلت دیتا ہے تاکہ ایک تو ان کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے۔ دوسرا، ان کی اولاد میں سے کچھ ایماندار نکل آئیں۔