سورة البقرة - آیت 182
فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب
البتہ جس کسی شخص کو وصیت کرنے والے کی طرف سے نادانستہ یا دانستہ طرفداری [٢٢٨] کا خطرہ ہو اور وہ وارثوں میں سمجھوتہ کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے
تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ
1-جَنَفًا (مائل ہونا) کا مطلب ہے غلطی یا بھول سے کسی ایک رشتے دار کی طرف زیادہ مائل ہو کر دوسروں کی حق تلفی کرے اور إِثْمًا سے مراد ہے جان بوجھ کر ایسا کرے (ایسرالتفاسیر) یا إِثْمًا سے مراد گناہ کی وصیت ہے جس کا بدلنا اور اس پر عمل نہ کرنا ضروری ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وصیت میں عدل وانصاف کا اہتمام ضروری ہے، ورنہ دنیا سے جاتے جاتے بھی ظلم کا ارتکاب، اس کے اخروی نجات کے نقطۂ نظر سے سخت خطرناک ہے۔