وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِندَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ
ان لوگوں نے (حق کے خلاف) خوب چالیں چلیں۔ حالانکہ ان کی چالوں کا توڑ اللہ کے پاس موجود تھا۔ اگرچہ ان کی چالیں ایسی خطرناک تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی ٹل [٤٦] جائیں
1- یہ جملہ حالیہ ہے کہ ہم نے ان کے ساتھ جو کیا وہ کیا، درآنحالیکہ انہوں نے باطل کے اثبات اور حق کے رد کرنے کے لئے مقدور بھر حیلے اور مکر کیے اور اللہ کو ان تمام چالوں کا علم ہے یعنی اس کے پاس درج ہے جس کی وہ ان کو سزا دے گا۔ 2- کیونکہ اگر پہاڑ ٹل گئے ہوتے تو اپنی جگہ برقرار نہ ہوتے، جب کہ سب پہاڑ اپنی اپنی جگہ ثابت اور برقرار ہیں۔ یہ ان نافیہ کی صورت میں ہے دوسرے معنی ان مخففۃ من المثقلۃ کے لیے گئے ہیں یعنی یقینا ان کے مکر تو اتنے بڑے تھے کہ پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جاتے یہ تو اللہ تعالٰی ہی ہے جس نے ان کے مکروں کو کامیاب نہیں ہونے دیا جیسے مشریکن کے شرک کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا۔ ﴿تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا﴾ (سورة مريم: 90-91)۔ ”قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں اس بات پر کہ انہوں نے کہا اللہ رحمٰن کی اولاد ہے“۔