سورة الرعد - آیت 33

أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۗ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ ۚ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَم بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ ۗ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بھلا وہ ذات جو ہر نفس کی کمائی پر نظر رکھتی ہے (انہیں بغیر سزا کے چھوڑ دے گی؟) جبکہ انہوں نے اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں۔ آپ ان سے کہئے : ان شریکوں کے نام [٤٤] تو لو یا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو زمین میں موجود تو ہے مگر وہ اسے نہیں جانتا ؟ یا جو کچھ منہ میں آئے کہہ ڈالتے ہو؟ بلکہ کافروں کے لئے ان کے مکر [٤٥] خوشنما بنا دیئے گئے ہیں اور وہ راہ حق سے روک دیئے گئے ہیں اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہاں اس کا جواب محذوف ہے یعنی کیا رب العزت اور وہ معبودان باطل برابر ہو سکتے ہیں جن کی یہ عبادت کرتے ہیں، جو کسی کو نفع پہنچانے پرقادر ہیں نہ نقصان پہنچانے پر، نہ وہ دیکھتے ہیں اور نہ عقل وشعور سے بہرہ ور ہیں۔ 2- یعنی ہمیں بھی تو بتاؤ تاکہ انہیں پہچان سکیں اس لئے کہ ان کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔ اس لئے آگے فرمایا، کیا تم اللہ کو وہ باتیں بتاتے ہو جو وہ زمین میں جانتا ہی نہیں، یعنی ان کا وجود ہی نہیں۔ اس لئے کہ اگر زمین میں ان کا وجود ہوتا تو اللہ تعالٰی کے علم میں ضرور ہوتا، اس پر تو کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ 3- یہاں ظاہر ظن کے معنی میں ہے یعنی یا یہ صرف ان کی ظنی باتیں ہیں، مطلب یہ ہے کہ تم ان بتوں کی عبادت اس گمان پر کرتے ہو کہ یہ نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں اور تم نے ان کے نام بھی معبود رکھے ہوئے ہیں، حالانکہ، "یہ تمہارے اور تمہارے باپوں کے رکھے ہوئے نام ہیں، جن کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اتاری۔ یہ صرف گمان اور خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں"۔ (النجم۔23) 4- مکر سے مراد، ان کے وہ غلط عقائد و اعمال ہیں جن میں شیطان نے ان کو پھنسا رکھا ہے، شیطان نے گمراہیوں پر بھی حسین غلاف چڑھا رکھے ہیں۔ 5- جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا، ﴿وَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا﴾ (المائدہ:41)۔ ”جس کو اللہ گمراہ کرنے کا ارادہ کر لے تو اللہ اس کے لئے کچھ اختیار نہیں رکھتا“، اور فرمایا۔ ﴿اِنْ تَحْرِصْ عَلٰي هُدٰىهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ يُّضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ﴾ ( النحل:37)۔ ”اگر تم ان کی ہدایت کی خواہش رکھتے ہو تو (یاد رکھو) اللہ تعالٰی اسے ہدایت نہیں دیتا جسے وہ گمراہ کرتا ہے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا“۔