فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ
پھر جب وہ (سہ بارہ یوسف اور اس کے بھائی کی تلاش میں) یوسف کے پاس آئے تو کہنے لگے : حضور والا! ہم اور ہمارے گھر والے سخت تکلیف میں ہیں اور ہم حقیر سی پونجی لائے ہیں۔ آپ ہم پر صدقہ کرتے ہوئے ہمیں غلہ پورا دے [٨٥] دیجئے۔ اللہ صدقہ کرنے والوں کو یقیناً جزا دیتا ہے
1- یہ تیسری مرتبہ ان کا مصر جانا ہے۔ 2- یعنی غلہ لینے کے لئے ہم جو ثمن (قیمت) لے کر آئے ہیں، وہ نہایت قلیل اور حقیر ہے۔ 3- یعنی ہماری حقیر پونجی کو نہ دیکھیں، ہمیں اس کے بدلے میں پورا ناپ دیں۔ 4- یعنی ہماری حقیر پونجی قبول کر کے ہم پر احسان اور خیرات کریں۔ اور بعض مفسرین نے اس کے معنی کیے ہیں کہ ہمارے بھائی بنیامین کو آزاد کر کے ہم پر احسان فرمائیں۔