فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا ۖ قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِي يُوسُفَ ۖ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّىٰ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
پھر جب وہ یوسف سے مایوس ہوگئے تو علیحدہ ہو کر مشورہ کرنے لگے : سب سے بڑے بھائی نے کہا ''یہ پتا ہے کہ تمہارے باپ نے اللہ کے نام پر تم لوگوں سے پختہ عہد لیا ہوا ہے۔ نیز تم اس سے پیشتر یوسف کے معاملہ میں بھی زیادتی کرچکے ہو۔ اب میں تو یہاں سے کبھی نہ جاؤں گا تاآنکہ میرا باپ مجھے حکم دے یا اللہ میرے [٧٧] لئے فیصلہ کر دے وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے
1- کیونکہ بنیامین کو چھوڑ کر جانا ان کے لئے کٹھن مرحلا تھا، وہ باپ کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے تھے۔ اس لئے باہم مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے؟ 2- اس کے بڑے بھائی اس صورت حال میں باپ کا سامنے کرنے کی اپنے اندر سکت اور ہمت نہیں پائی، تو صاف کہہ دیا کہ میں تو یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک خود والد صاحب تفتیش کر کے میری بےگناہی کا یقین نہ کرلیں اور مجھے آنے کی اجازت نہ دیں۔ 3- اللہ میرے لئے معاملہ فیصل کردے۔ کا مطلب یہ ہے کہ کسی طرح یوسف (عليہ السلام) (عزیز مصر) بنیامین کو چھوڑ دے اور میرے ساتھ جانے کی اجازت دے دے، یا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اتنی قوت عطا کردے کہ میں بنیامین کو تلوار یعنی طاقت کے ذریعے سے چھڑوا کر اپنے ساتھ لے جاؤں ۔