وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ۚ وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
چنانچہ جس طرح ان کے باپ نے (شہر میں) داخل ہونے کا حکم دیا تھا ویسے وہ اس میں داخل ہوئے۔ اس کی یہ تدبیر اللہ کی مشیئت [٦٦] کے مقابلہ میں کچھ بھی کام نہ آئی۔ یہ تو محض یعقوب کے دل کا ارمان تھا جسے اس نے پورا کیا تھا۔ بیشک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم کی وجہ [٦٧] سے صاحب علم تھا۔ مگر اکثر لوگ (یہ حقیقت) نہیں جانتے
* یعنی اس تدبیر سے اللہ کی تقدیر کو ٹالا نہیں جاسکتا تھا، تاہم حضرت یعقوب (عليہ السلام) کے جی میں جو (نظر بد لگ جانے کا) اندیشہ تھا، اس کے پیش نظر انہوں نے ایسا کہا۔ ** یعنی یہ تدبیر وحی الٰہی کی روشنی میں تھی اور یہ عقیدہ بھی کہ حذر (احتیا طی تدبیر) قدر کو نہیں بدل سکتی، اللہ تعالٰی کے سکھلائے ہوئے علم پر مبنی تھا، جس سے اکثر لوگ بے بہرہ ہیں۔