سورة البقرة - آیت 158

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ لہٰذا جو شخص کعبہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کا طواف کرے [١٩٧] اور جو شخص برضا و رغبت نیکی کا کوئی کام کرے تو بے شک اللہ بڑا قدر دان ہے اور ہر بات کو جاننے والا ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-شَعَائِرُ شَعِيرَةٌ کی جمع ہے، جس کے معنی علامت کے ہیں، یہاں حج کے وہ مناسک (مثلاً موقف، سعی، منحر، ہدی (قربانی) کو اشعار کرنا وغیرہ) مراد ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں۔ 2- صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا، حج کا ایک رکن ہے۔ لیکن قرآن کے الفاظ (کوئی گناہ نہیں) سے بعض صحابہ (رضی الله عنہم) کو یہ شبہ ہوا کہ شاید یہ ضروری نہیں ہے۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کے علم مین جب یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا: اگر اس کا یہ مطلب ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ یوں فرماتا: ﴿فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لا يَطَّوَّفَ بِهمَا﴾ ”اگر ان کا طواف نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں“ پھر اس کی شان نزول بیان فرمائی کہ انصار قبول اسلام سے قبل مناۂ طاغیہ (بت) کے نام کا تلبیہ پکارتے، جس کی وہ مشلل پہاڑی پر عبادت کرتے تھے اور پھر مکہ پہنچ کر ایسے لوگ صفا مروہ کے درمیان سعی کو گناہ سمجھتے تھے، مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) سے پوچھا تو یہ آیت نازل ہوئی جس میں کہا گیا کہ صفا مروہ کے درمیان سعی گناہ نہیں۔ (صحيح بخاري، كتاب الحج باب وجوب الصفا والمروة) بعض حضرات نے اس کا پس منظر اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جاہلیت میں مشرکوں نے صفا پہاڑی پر ایک بت (اساف) مروہ پہاڑی پر نائلہ بت رکھا ہوا تھا، جنہیں وہ سعی کے دوران بوسہ دیتے یا چھوتے۔ جب مسلمان ہوئے تو ان کے ذہن میں آیا کہ صفا مروہ کے درمیان سعی تو شاید گناہ ہو، کیوں کہ اسلام سے قبل دو بتوں کی وجہ سے سعی کرتے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کے اس وہم اور خلش کو دور فرما دیا۔ اب یہ سعی ضروری ہے جس کا آغاز صفا سے اور خاتمہ مروہ پر ہوتا ہے۔ (ایسر التفاسیر)۔