سورة یوسف - آیت 50

وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ ۚ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بادشاہ نے (جب یہ تعبیر سنی تو) کہا کہ اس شخص کو میرے پاس لاؤ۔ مگر جب پیغام لے جانے والا یوسف کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا : اپنے مالک (بادشاہ مصر) کے پاس واپس جاؤ اور اس سے پوچھو کہ : ان عورتوں والا معاملہ کیسا ہے۔ جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ [٤٩] ڈالے تھے؟ میرا پروردگار تو ان کے چلتروں کو خوب جاننے والا ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- مطلب یہ ہے کہ جب وہ شخص تعبیر دریافت کر کے بادشاہ کے پاس گیا اور اسے تعبیر بتائی تو وہ اس تعبیر سے اور حضرت یوسف (عليہ السلام) کی بتلائی ہوئی تدبیر سے بڑا متاثر ہوا اور اس نے اندازہ لگا لیا کہ یہ شخص، جسے ایک عرصے سے حوالہ زنداں کیا ہوا ہے، غیر معمولی علم وفضل اور اعلٰی صلاحیتوں کا حامل ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے انہیں دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ 2- حضرت یوسف (عليہ السلام) نے جب دیکھا کہ بادشاہ اب مائل بہ کرم ہے، تو انہوں نے اس طرح محض عنایت خسروانہ سے جیل سے نکلنے کو پسند نہیں فرمایا، بلکہ اپنے کردار کی رفعت اور پاک دامنی کے اثبات کو ترجیح دی تاکہ دنیا کے سامنے آپ کا کردار اور اس کی بلندی واضح ہو جائے۔ کیونکہ داعی الی اللہ کے لئے یہ عفت وپاک بازی اور رفعت کردار بہت ضروری ہے۔