قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَن نَّفْسِي ۚ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا إِن كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكَاذِبِينَ
یوسف نے کہا : : (بات یوں نہیں بلکہ) اس نے مجھے اپنی طرف ورغلانا چاہا تھا اور اس (زلیخا) کے خاندان میں سے ایک گواہ نے (قرائن کی بناپر) شہادت دیتے ہوئے کہا : اگر یوسف کی قمیص آگے سے پھٹی تو عورت سچی اور یوسف جھوٹا ہے
1- حضرت یوسف (عليہ السلام) نے جب دیکھا کہ وہ عورت تمام الزام ان پر ہی دھر رہی ہے صورت حال واضح کر دی اور کہا کہ مجھے برائی پر مجبور کرنے والی یہی ہے۔ میں اس سے بچنے کے لئے باہر دروازے کی طرف بھاگتا ہوا آیا ہوں۔ 2- یہ انہی کے خاندان کا کوئی سمجھدار آدمی تھا جس نے یہ فیصلہ کیا۔ فیصلے کو یہاں شہادت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا، کیونکہ معاملہ ابھی تحقیق طلب تھا۔ شیر خوار بچے کی شہادت والی بات مستند روایات سے ثابت نہیں۔ صحیحین میں تین شیر خوار بچوں کے بات کرنے کی حدیث ہے جن میں یہ چوتھا نہیں ہے جس کا ذکر اس مقام پر کیا جاتا ہے۔