وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ ۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَن رَّأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ
چنانچہ اس عورت نے یوسف کا قصد کیا اور وہ بھی اس عورت کا قصد کرلیتے اگر اپنے پروردگار کی برہان [٢٤] نہ دیکھ لیتے اس طرح ہم نے انھیں اس برائی اور بے حیائی سے بچا لیا۔ کیونکہ وہ ہمارے مخلص بندوں سے تھے
1- بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ﴿لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّه﴾(یوسف:24) کا تعلق ماقبل یعنی ﴿وَهَمَّ بِهَا﴾ سے نہیں بلکہ اس کا جواب محذوف ہے یعنی "لَوْلا أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ لَفَعَلَ مَا هَمَّ بِهِ" ترجمہ یہ ہوگا کہ اگر یوسف (عليہ السلام) اللہ کی دلیل نہ دیکھتے تو جس چیز کا قصد کیا تھا وہ کر گزرتے۔ یہ ترجمہ اکثر مفسرین کی تفسیر کے مطابق ہے اور جن لوگوں نے اسے لَوْلَا کے ساتھ جوڑ کر یہ معنی بیان کئے ہیں کہ یوسف (عليہ السلام) نے قصد ہی نہیں کیا، ان مفسرین نے اسے عربی اسلوب کے خلاف قرار دیا ہے۔ اور یہ معنی بیان کئے ہیں کہ قصد تو یوسف (عليہ السلام) نے بھی کر لیا تھا لیکن ایک تو یہ اختیاری نہیں تھا بلکہ عزیز مصر کی بیوی کی ترغیب اور دباؤ اس میں شامل تھا۔ دوسرے یہ کہ گناہ کا قصد کر لینا عصمت کے خلاف نہیں ہے، اس پر عمل کرنا عصمت کے خلاف ہے (فتح القدیر، ابن کثیر) مگر محققین اہل تفسیر نے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ یوسف (عليہ السلام) بھی اس کا قصد کر لیتے۔ اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھے ہوتے۔ یعنی انہوں نے اپنے رب کی برہان دیکھ رکھی تھی۔ اس لیے عزیز مصر کی بیوی کا قصد ہی نہیں کیا۔ بلکہ دعوت گناہ ملتے ہی پکار اٹھے ﴿مَعَاذَ اللَّهِ﴾۔ البتہ قصد نہ کرنے کے یہ معنی نہیں کہ نفس میں ہیجان اور تحریک ہی پیدا نہیں ہوئی۔ ہیجان اور تحریک پیدا ہو جانا الگ بات ہے۔ اور قصد کر لینا الگ بات ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر سرے سے ہیجان اور تحریک ہی پیدا نہ ہو تو ایسے شخص کا گناہ سے بچ جانا کوئی کمال نہیں۔ کمال تو تب ہی ہے کہ نفس کے اندر داعیہ اور تحریک پیدا ہو اور پھر انسان اس پر کنٹرول کرے اور گناہ سے بچ جائے۔ حضرت یوسف (عليہ السلام) نے اسی کمال صبر و ضبط کا بےمثال نمونہ پیش فرمایا۔ 2- یہاں پہلی تفسیر کے مطابق لَوْلاَ کا جواب محذوف ہے لَفَعَلَ مَا هَمَّ بِهِ یعنی اگر یوسف (عليہ السلام) رب کی برہان دیکھتے تو جو قصد کیا تھا کر گزرتے۔ یہ برہان کیا تھی؟ اس میں مختلف اقوال ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ رب کی طرف سے کوئی ایسی چیز آپ کو دکھائی گئی کہ اسے دیکھ کر آپ نفس کے داعیئے کے دبانے اور رد کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اللہ تعالٰی اپنے پیغمبروں کی اسی طرح حفاظت فرماتا ہے۔ 3- یعنی جس طرح ہم نے یوسف (عليہ السلام) کو برہان دکھا کر برائی یا اس کے ارادے سے بچا لیا، اسی طرح ہم نے اسے ہر معاملے میں برائی اور بےحیائی کی باتوں سے دور رکھنے کا اہتمام کیا۔ کیونکہ وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔