سورة ھود - آیت 87

قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ۖ إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہ کہنے لگے : شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہی سکھاتی [٩٧] ہے کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جنہیں ہمارے آباء و اجداد پوجتے آئے ہیں یا جیسے ہم چاہتے ہیں اپنے اموال میں تصرف [٩٨] کرنا چھوڑ دیں؟ تم تو بڑے بردبار اور بھلے مانس آدمی تھے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- صَلاةٌ سے مراد عبادت دین یا تلاوت ہے۔ 2- اس سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک زکوۃ و صدقات ہیں، جس کا حکم ہر آسمانی مذہب میں دیا گیا ہے اللہ کے حکم سے زکوٰۃ وصدقات کا اخراج، اللہ کے نافرمانوں پر نہایت شاق گزرتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم اپنی محنت و لیاقت سے مال کماتے ہیں تو اس کے خرچ کرنے یا نہ کرنے میں ہم پر پابندی کیوں ہو۔ اور اس کا کچھ حصہ ایک مخصوص مد کے لیے نکالنے پر ہمیں مجبور کیوں کیا جائے؟ اسی طریقے سے کمائی اور تجارت میں حلال و حرام اور جائز وناجائز کی پابندی بھی ایسے لوگوں پر نہایت گراں گزرتی ہے، ممکن ہے ناپ تول میں کمی سے روکنے کو بھی انہوں نے اپنے مالی تصرفات میں دخل درمعقولات سمجھا ہو۔ اور ان الفاظ میں اس سے انکار کیا ہو۔ دونوں ہی مفہوم اس کے صحیح ہیں۔ 3- حضرت شعیب (عليہ السلام) کے لئے یہ الفاظ انہوں نے بطور استہزا کہے۔