بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ
بلکہ انہوں نے اس چیز [٥٥] کو جھٹلا دیا جس کا وہ اپنے علم سے احاطہ نہ کرسکے حالانکہ ابھی تک اس کا مال [٥٦] سامنے ہی نہیں آیا۔ اسی طرح ان لوگوں نے بھی جھٹلا دیا جو ان سے پہلے تھے پھر دیکھ لو، ظالموں کا کیا انجام ہوا ؟
1- یعنی قرآن میں تدبر اور اس کے معنی پر غور کئے بغیر، اسکو جھٹلانے پر تل گئے۔ 2- یعنی قرآن نے جو پچھلے واقعات اور مستقبل کے امکانات بیان کئے ہیں، اس کی پوری سچائی اور حقیقت بھی ان پر واضح نہیں ہوئی، اس کے بغیر ہی تکذیب شروع کر دی، یا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انہوں نے قرآن پر کما حقہ تدبر کئے بغیر ہی اس کو جھٹلایا حالانکہ اگر وہ صحیح معنوں میں اس پر تدبر کرتے اور ان امور پر غور کرتے، جو اسکے کلام الٰہی ہونے پر دلالت کرتے ہیں تو یقینا اس کے فہم اور معانی کے دروازے ان پر کھل جاتے۔ اس صورت میں تاویل کے معنی۔ قرآن کریم کے اسرار ومعارف اور لطائف و معانی کے واضح ہو جانے کے ہونگے۔ 3- یہ ان کفار ومشرکین کو تنبیہ وسرزنش ہے، کہ تمہاری طرح پچھلی قوموں نے بھی آیات الٰہی کو جھٹلایا تو دیکھ لو ان کا کیا انجام ہوا؟ اگر تم اس کو جھٹلانے سے باز نہ آئے تو تمہارا انجام بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا۔