وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ ۖ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ ۚ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ
جبکہ شیطان نے انہیں ان کے اعمال خوشنما بنا کر دکھلائے اور کہنے لگا کہ ''آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور میں تمہارا مددگار ہوں'' پھر جب دونوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوا تو الٹے پاؤں پھر گیا اور کہنے لگا : ''میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں۔ میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے۔ مجھے [٥٣] اللہ سے ڈر لگتا ہے اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے''
* مشرکین جب مکہ سے روانہ ہوئے تو انہیں اپنے حریف قبیلے بنی بکر بن کنانہ سے اندیشہ تھا کہ وہ پیچھے سے انہیں نقصان نہ پہنچائے، چنانچہ شیطان سراقہ بن مالک کی صورت بنا کر آیا، جو بنی بکر بن کنانہ کے ایک سردار تھے، اور کہا انہیں نہ صرف فتح وغلبہ کی بشارت دی بلکہ اپنی حمایت کا بھی پورا پورا یقین دلایا۔ لیکن جب ملائکہ کی صورت میں امداد الٰہی اسے نظر آئی تو ایڑیوں کے بل بھاگ کھڑا ہوا۔ ** اللہ کا خوف تو اس کے دل میں کیا ہونا تھا؟ تاہم اسے یقین ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کو اللہ کی خاص مدد حاصل ہے۔ مشرکین ان کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکیں گے۔ *** ممکن ہے یہ شیطان کے کلام کا حصہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے جملہ مستانفہ ہو۔