قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَنتَهُوا يُغْفَرْ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ وَإِن يَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ
(اے نبی) ان کافروں سے کہئے کہ اگر وہ اب بھی باز آجائیں تو ان کے سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے اور اگر پہلے سے کام ہی کرتے رہے تو گذشتہ قوموں میں جو سنت الٰہی جاری رہی [٣٩] (وہی سلوک ان سے بھی ہوگا)
1- باز آجانے کا مطلب، مسلمان ہونا ہے، جس طرح حدیث میں بھی ہے (جس نے اسلام قبول کر کے نیکی کا راستہ اپنا لیا، اس سے اس کے گناہوں کی باز پرس نہیں ہوگی جو اس نےجاہلیت میں کیے ہونگے اور جس نےاسلام لا کر بھی برائی نہ چھوڑی، اس سے اگلےپچھلے سب عملوں کا مؤاخذہ ہوگا۔ (صحيح بخاری، كتاب استتابة المرتدين- وصحيح مسلم- كتاب الإيمان، باب هل يؤاخذ بأعمال الجاهلية) ایک اور حدیث میں ہے [ الإسْلامُ يَجُبُّ مَا قَبْلَهُ ] (مسند أحمد ۔ جلد 4، ص 199) ”اسلام ماقبل کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے“۔ 2- یعنی اگر وہ اپنے کفر وعناد پر قائم رہے تو جلد یا بہ دیر عذاب الٰہی کے مورد بن کر رہیں گے۔