لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَىٰ بَعْضٍ فَيَرْكُمَهُ جَمِيعًا فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
تاکہ اللہ تعالیٰ پاک کو ناپاک سے الگ کردے۔ پھر ناپاک کو ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر ان سب کا ڈھیر لگا دے۔[٣٨] پھر اس ڈھیر کو جہنم میں پھینک دے۔ یہی لوگ ہی دراصل نقصان اٹھانے والے ہیں
1- یہ علیحدگی یا تو آخرت میں ہوگی کہ اہل سعادت کو اہل شقاوت سے الگ کر دیا جائےگا، جیسا کہ فرمایا ۔ ﴿وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ﴾ [يس: 59] ”اے گناہ گارو! آج الگ ہو جاؤ“، یعنی نیک لوگوں سے اور مجرموں یعنی کافروں، مشرکوں اور نافرمانوں کو اکھٹا کرکے سب کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ یا پھر اس کا تعلق دنیا سے ہے اور لام تعلیل کے لئے ہے۔ یعنی کافر اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے جو مال خرچ کر رہے ہیں، ہم ان کو ایسا کرنے کا موقع دیں گے تاکہ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ خبیث کو طیب سے، کافر کو مومن سے اور منافق کو مخلص سے علیحدہ کر دے۔ اس اعتبار سے آیت کے معنی ہوں گے، کفار کے ذریعے سے ہم تمہاری آزمائش کریں گے، وہ تم سےلڑیں گے اور ہم انہیں ان کے مال بھی لڑائی پر خرچ کرنے کی قدرت دیں گے تاکہ خبیث، طیب سے ممتاز ہو جائے۔ پھر وہ خبیث کو ایک دوسرے سے ملا دے گا یعنی سب کو جمع کر دے گا۔ ( ابن کثیر)