وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
اور جو شخص اس دن پیٹھ پھیرے گا، الا یہ کہ وہ کوئی جنگی چال چل رہا ہو یا مڑ کر اپنے دستہ فوج کو ملنا چاہتا ہو، تو ایسا آدمی اللہ کے غضب [١٥] میں آگیا۔ اس کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور وہ بری جائے بازگشت ہے
1- گزشتہ آیت میں پیٹھ پھیرنے سے جو منع کیا گیا ہے، دو صورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں: ایک تَحَرُّفٌ کی اور دوسری تَحَيُّزٌ کی۔ تَحَرُّفٌ کے معنی ہیں ایک طرف پھر جانا۔ یعنی لڑائی میں جنگی چال کے طور پر یا دشمن کو دھوکے میں ڈالنے کی غرض سے لڑتا لڑتا ایک طرف پھر جائے، دشمن یہ سمجھے کہ شاید یہ شکست خوردہ ہو کر بھاگ رہا ہے لیکن پھر وہ ایک دم پینترا بدل کر اچانک دشمن پر حملہ کر دے۔ یہ پیٹھ پھیرنا نہیں ہے بلکہ یہ جنگی چال ہے جو بعض دفعہ ضروری اور مفید ہوتی ہے تَحَيُّزٌ کے معنی ملنے اور پناہ لینے کے ہیں ۔ کوئی مجاہد لڑتا لڑتا تنہا رہ جائے تو بہ لطائف الحیل میدان جنگ سے ایک طرف ہو جائے، تاکہ وہ اپنی جماعت کی طرف پناہ حاصل کرے اور اس کی مدد سے دوبارہ حملہ کرے ۔ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں ۔ 2- یعنی مذکورہ دو صورتوں کے علاوہ کوئی شخص میدان جنگ سے پیٹھ پھیرے گا، اس کے لیے یہ سخت وعید ہے۔