سورة الاعراف - آیت 189

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ۖ فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ ۖ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

وہی تو ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی بنائی تاکہ اس کے ہاں سکون حاصل کرے۔ پھر جب کسی مرد نے اپنی بیوی سے صحبت کی تو اسے ہلکا سا حمل ہوگیا جس کے ساتھ وہ چلتی پھرتی رہی، پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں اپنے پروردگار سے دعا کرنے لگے کہ : اگر تو ہمیں تندرست بچہ عطا کرے تو ہم یقینا شکر کرنے والوں سے ہونگے

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* ابتدا یعنی حضرت آدم (عليہ السلام) سے ۔ اسی لیے ان کو انسان اول اور ابو البشر کہا جاتا ہے۔ ** اس سے مراد حضرت حوا ہیں، جو حضرت آدم (عليہ السلام) کی زوج بنیں۔ ان کی تخلیق حضرت آدم (عليہ السلام) سے ہوئی، جس طرح کہ منھا کی ضمیر سے، جو نفس واحدۂ کی طرف راجع ہے، واضح ہے (مزید دیکھئے سورہ نساء آیت 1، کا حاشیہ) *** یعنی اس سے اطمینان وسکون حاصل کرے۔ اس لیے کہ ایک جنس اپنے ہی ہم جنس سے صحیح معنوں میں مانوس اور قریب ہوسکتی ہے جو سکون حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ قربت کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [الروم: 21]. ”اللہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے ( یا تمہاری جنس ہی میں سے ) جوڑے پیدا کیے، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان اس نے پیار ومحبت رکھ دی“۔ یعنی اللہ نے مرد اور عورت دونوں کے اندر ایک دوسرے کے لیے جو جذبات اور کشش رکھی ہے، فطرت کے یہ تقاضے وہ جوڑا بن کر پورا کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے قرب وانس حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ جو باہمی پیار میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے وہ دنیا میں کسی اور کے ساتھ نہیں ہوتا۔ **** یعنی یہ نسل انسانی اس طرح بڑھی اور آگے چل کر جب ان میں سے ایک زوج یعنی میاں بیوی نے ایک دوسرے سے قربت کی۔ ”تَغَشَّاهَا“ کے معنی بیوی سے ہم بستری کرنا ہیں۔ یعنی وطی کرنے کے لیے ڈھانپا۔ ***** یعنی حمل کے ابتدائی ایام میں حتیٰ کہ نطفے سے عَلَقَةٌ اور عَلَقَةٌ سے مُضْغَةٌ بننے تک، حمل خفیف ہی رہتا ہے، محسوس بھی نہیں ہوتا اور عورت کو زیادہ گرانی بھی نہیں ہوتی۔ ****** بوجھل ہو جانے سے مراد، جب بچہ پیٹ میں بڑا ہو جاتا ہے تو جوں جوں ولادت کا وقت قریب آتا جاتا ہے، والدین کے دل میں خطرات اور توہمات پیدا ہوتے جاتے ہیں (بالخصوص جب عورت کو اٹھراہ کی بیماری ہو) تو انسانی فطرت ہے کہ خطرات میں وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، چنانچہ وہ دونوں اللہ سے دعائیں کرتے ہیں اور شکر گزاری کا عہد کرتے ہیں۔