قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
آپ کہہ دیجئے کہ : '' مجھے تو خود اپنے آپ کو بھی نفع یا نقصان [١٨٨] پہنچانے کا اختیار نہیں۔ اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے۔ اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو محض ایک ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں، ان لوگوں کے لئے جو ایمان لے آئیں
* یہ آیت اس بات میں کتنی واضح ہے کہ نبی (ﷺ) عالم الغیب نہیں۔ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے ۔ لیکن ظلم اور جہالت کی انتہا ہے کہ اس کے باوجود اہل بدعت آپ (ﷺ) کو عالم الغیب باور کراتے ہیں۔ حالانکہ بعض جنگوں میں آپ کے دندان مبارک بھی شہید ہوئے، آپ (ﷺ) کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا، اور آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ ”یہ قوم کیسے فلاح یاب ہوگی جس نے اپنے نبی کے سر کو زخمی کر دیا“، کتب حدیث میں یہ واقعات بھی اور ذیل کے واقعات بھی درج ہیں، حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) پر تہمت لگی تو آپ پورا ایک مہینہ سخت مضطرب اور نہایت پریشان رہے۔ ایک یہودی عورت نے آپ کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملا دیا، جسے آپ نے بھی تناول فرمایا اور صحابہ نے بھی، حتیٰ کہ بعض صحابہ تو کھانے کے زہر سے شہید ہی ہوگئے اور خود نبی (ﷺ) عمر بھر اس زہر کے اثرات محسوس فرماتے رہے۔ یہ اور اس قسم کے متعدد واقعات ہیں جن سے واضح ہے کہ آپ کو عدم علم کی وجہ سے تکلیف پہنچی، نقصان اٹھانا پڑا، جس سے قرآن کی بیان کردہ حقیقت کا اثبات ہوتا ہے کہ ”اگر میں غیب جانتا ہوتا تو مجھے کوئی مضرت نہ پہنچتی“۔