سورة الاعراف - آیت 169

فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَٰذَا الْأَدْنَىٰ وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهُ يَأْخُذُوهُ ۚ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِم مِّيثَاقُ الْكِتَابِ أَن لَّا يَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوا مَا فِيهِ ۗ وَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

پھر ان کے بعد ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جو کتاب کے وارث [١٧١] بن کر اسی دنیا کی زندگی کا مال سمیٹنے لگے اور کہتے یہ تھے کہ ’’ہمیں معاف کردیا جائے گا‘‘ اور اگر ویسا ہی دنیا کا مال پھر ان کے سامنے آئے تو پھر اسے لے لیتے ہیں۔ کیا ان سے کتاب میں یہ عہد نہیں لیا گیا تھا کہ وہ حق بات کے سوا اللہ سے کوئی بات منسوب نہ کریں گے؟ اور یہ بات وہ پڑھتے بھی رہے جو کتاب میں مذکور تھی اور آخرت کا گھر تو اللہ سے ڈرنے والوں ہی کے لئے بہتر ہے۔[١٧٢] کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں؟

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- ”خَلَفٌ“ (لام پر زبرکے ساتھ) صالح اولاد کو اور خَلْفٌ (بِسُكُونِ اللامِ) نالائق اولاد کو کہتے ہیں۔ اردو میں بھی ناخلف کی ترکیب نالائق اولاد کے معنی میں مستعمل ہے۔ 2- ”أَدْنَىدُنُوٌّ (قریب) سے ماخوذ ہے یعنی قریب کا مال حاصل کرتے ہیں جس سے دنیا مراد ہے یا یہ دَنَاءَةٌ سے ماخوذ ہے جس سے مراد حقیر اور گرا پڑا مال ہے۔ مطلب دونوں سے ان کے دنیا کے مال ومتاع کے حرص کی وضاحت ہے۔ 3- یعنی طالب دنیا ہونے کے باوجود، مغفرت کی امید رکھتے ہیں۔ جیسے آج کل کے مسلمانوں کا بھی حال ہے۔ 4-اس کے باوجود وہ اللہ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنے سے باز نہیں آتے، مثلاً وہی مغفرت کی بات، جو اوپر گزری۔ 5- اس کا ایک دوسرا مفہوم مٹانا بھی ہوسکتا ہے، جیسے دَرَسَتِ الرِّيحُ الآثَارَ (ہوا نے نشانات مٹا ڈالے) یعنی کتاب کی باتوں کو مٹا ڈالا، محو کر دیا یعنی ان پر عمل ترک کر دیا۔