وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَىٰ حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا ۚ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن يُعَمَّرَ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
اور (حقیقت حال تو اس کے بالکل برعکس ہے) آپ انہیں زندہ [١١٣] رہنے کے لیے سب لوگوں سے زیادہ حریص پائیں گے، ان لوگوں سے بھی زیادہ حریص جو مشرک ہیں۔ ان میں سے تو ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے ہزار سال عمر ملے۔ اور اگر اسے اتنی عمر مل بھی جائے تو وہ اسے عذاب سے بچا تو نہ سکے گی۔ اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے جو کام وہ کر رہے ہیں
1-موت کی آرزو تو کجا، یہ تو دنیوی زندگی کے تمام لوگوں حتیٰ کہ مشرکین سے بھی زیادہ حریص ہیں، لیکن عمر کی یہ درازی انہیں عذاب الٰہی سے بچا نہیں سکے گی۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ یہودی اپنے ان دعوؤں میں یکسر جھوٹے تھے کہ وہ اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں، یا جنت کے مستحق صرف وہی ہیں اور دوسرے جہنمی، کیوں کہ فی الواقع اگر ایسا ہوتا، یا کم از کم انہیں اپنے دعوؤں کی صداقت پر پورا یقین ہوتا، تو یقیناً وہ مباہلہ کرنے پر آمادہ ہوجاتے، تاکہ ان کی سچائی واضح اور مسلمانوں کی غلطی آشکارا ہوجاتی۔ مباہلے سے پہلے یہودیوں کا اعراض اور گریز اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ گو وہ زبان سے اپنے بارے میں خوش کن باتیں کرلیتے تھے، لیکن ان کے دل اصل حقیقت سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ اللہ کی بارگاہ میں جانے کے بعد ان کا حشر وہی ہوگا جو اللہ نے اپنے نافرمانوں کے لئے طے کر رکھا ہے۔