هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ ۚ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ يَقُولُ الَّذِينَ نَسُوهُ مِن قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَل لَّنَا مِن شُفَعَاءَ فَيَشْفَعُوا لَنَا أَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ قَدْ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ
یہ لوگ بس اب اس کے انجام کا انتظار کر رہے ہیں (جس کا پتہ یہ کتاب دے رہی ہے) جس دن اس کا انجام [٥٢] سامنے آجائے گا تو جن لوگوں نے پہلے کتاب کو بھلا رکھا تھا کہیں گے : ''واقعی ہمارے پاس رسول حق بات لے کر آئے تھے۔ پھر اب کیا ہمارے لئے کوئی سفارشی ہیں جو ہماری سفارش کریں یا ہمیں واپس (دنیا میں) ہی بھیج دیا جائے تاکہ جو کام ہم کرتے رہے اس کے علاوہ دوسری قسم کے کام کریں'' ان لوگوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال دیا، اور جو کچھ بھی وہ باتیں بنایا کرتے تھے انہیں کچھ یاد نہ رہیں گی
* تاویل کا مطلب ہے، کسی چیز کی اصل حقیقت اور انجام ۔ یعنی کتاب الٰہی کے ذریعے سے وعدے، وعید اور جنت ودوزخ وغیرہ کا بیان تو کردیا گیا تھا ۔ لیکن یہ اس دنیا کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے منتظر تھے، سو اب وہ انجام ان کے سامنے آگیا ۔ ** یعنی یہ جس انجام کے منتظر تھے، اس کے سامنے آجانے کے بعد اعتراف حق کرنے یا دوبارہ دنیا میں بھیجے جانے کی آرزو اور کسی سفارشی کی تلاش، یہ سب بے فائدہ ہوں گی ۔ وہ معبود بھی ان سے گم ہوجائیں گے جن کی وہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے، وہ ان کی مدد کرسکیں گے نہ سفارش اور نہ عذاب جہنم سے چھڑا ہی سکیں گے ۔