قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
آپ ان سے کہیے کہ میرے پروردگار نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ یہ ہیں: ’’بے حیائی کے کام خواہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہوں اور گناہ کے کام اور ناحق زیادتی اور یہ کہ تم اللہ کے شریک بناؤ جس کے لیے اس نے کوئی سند نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کے ذمے [٣٣] ایسی باتیں لگا دو جن کا تمہیں علم نہیں‘‘
اثم اور بغی، کیا فرق ہے؟ بخاری و مسلم میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { اللہ سے زیادہ غیرت والا کوئی نہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4634) سورۃ الانعام میں چھپی کھلی بےحیائیوں کے متعلق پوری تفسیر گزر چکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر گناہ کو حرام کر دیا ہے اور ناحق ظلم و تعدی ، سرکشی اور غرور کو بھی اس نے حرام کیا ہے ۔ پس «اثم» سے مراد ہر وہ گناہ ہے جو انسان آپ کرے اور «بغی» سے مراد وہ گناہ ہے جس میں دوسرے کا نقصان کرے یا اس کی حق تلفی کرے ۔ اسی طرح رب کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا بھی حرام ہے اور ذات حق پر بہتان باندھنا بھی ۔ مثلاً اس کی اولاد بتانا وغیرہ ۔ خلاف واقعہ باتیں بھی جہالت کی باتیں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے «فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ» ۱؎ (22-الحج:30) ’ بتوں کی نجاست سے بچو ۔ ‘