وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۗ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
وہی تو ہے جس نے تمہیں زمین میں نائب بنایا [١٩٠] اور ایک کے مقابلے میں دوسرے کے درجے [١٩١] بلند کئے تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں دے رکھا ہے اسی میں تمہاری [١٩٢] آزمائش کرے۔ بلاشبہ آپ کا پروردگار سزا دینے میں دیر نہیں لگاتا اور (ساتھ ہی ساتھ) وہ یقیناً بخشنے والا اور مہربان بھی ہے
اللہ کی رحمت اللہ کے غضب پر غالب ہے اس اللہ نے تمہیں زمین کا آباد کار بنایا ہے ، وہ تمہیں یکے بعد دیگرے پیدا کرتا رہتا ہے «وَلَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنکُم مَّلَائِکَۃً فِی الْأَرْضِ یَخْلُفُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:60) ’ ایسا نہیں کیا کہ زمین پر فرشتے بستے ہوں ‘ ۔ فرمان ہے «عَسَیٰ رَبٰکُمْ أَن یُہْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْأَرْضِ فَیَنظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُونَ» ۱؎ (7-الأعراف:129) ’ ممکن ہے ، تمہارا رب تمہارے دشمن کو غارت کر دے اور تمہیں زمین میں خلیفہ بنا کر آزمائے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو ؟ ‘ اس نے تمہارے درمیان مختلف طبقات بنائے ، کوئی غریب ہے ، کوئی خوش خو ہے ، کوئی بد اخلاق ، کوئی خوبصورت ہے ، کوئی بدصورت ، یہ بھی اس کی حکمت ہے ، «نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُم مَّعِیشَتَہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضًا سُخْرِیًّا» (43-الزخرف:32) ’ اسی نے روزیاں تقسیم کی ہیں ایک کو ایک کے ماتحت کر دیا ہے ‘ ۔ فرمان ہے آیت «اُنْظُرْ کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَلَلْاٰخِرَۃُ اَکْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَکْبَرُ تَفْضِیْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:21) ’ دیکھ لے کہ ہم نے ان میں سے ایک کو ایک پر کیسے فضیلت دی ہے ؟ ‘ اس سے منشاء یہ ہے کہ آزمائش و امتحان ہو جائے ، امیر آدمیوں کا شکر ، فقیروں کا صبر معلوم ہو جائے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { دنیا میٹھی اور سبز رنگ ہے اللہ تمہیں اس میں خلیفہ بنا کر دیکھ رہا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو ؟ پس تمہیں دنیا سے ہوشیار رہنا چاہیئے اور عورتوں کے بارے میں بہت احتیاط سے رہنا چاہیئے ، بنی اسرائیل کا پہلا فتنہ عورتیں ہی تھیں } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2742) اس سورت کی آخری آیت میں اپنے دونوں وصف بیان فرمائے ، عذاب کا بھی ، ثواب کا بھی ، پکڑ کا بھی اور بخشش کا بھی اپنے نافرمانوں پر ناراضگی کا اور اپنے فرمانبرداروں پر رضا مندی کا ، عموماً قرآن کریم میں یہ دونوں صفتیں ایک ساتھ ہی بیان فرمائی جاتی ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَاِنَّ رَبَّکَ لَذُوْ مَغْفِرَۃٍ لِّلنَّاسِ عَلٰی ظُلْمِہِمْ وَاِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیْدُ الْعِقَابِ» ۱؎ (13-الرعد:6) اور آیت میں ہے «نَبِّئْ عِبَادِی أَنِّی أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیمُ وَأَنَّ عَذَابِی ہُوَ الْعَذَابُ الْأَلِیمُ» ۱؎ (15-الحجر:49) یعنی ’ تیرا رب اپنے بندوں کے گناہ بخشنے والا بھی ہے اور وہ سخت اور درد ناک عذاب دینے والا بھی ہے ‘ - پس ان آیتوں میں رغبت رہبت دونوں ہیں اپنے فضل کا اور جنت کا لالچ بھی دیتا ہے اور آگ کے عذاب سے دھمکاتا بھی ہے کبھی کبھی ان دونوں وصفوں کو الگ الگ بیان فرماتا ہے تاکہ عذابوں سے بچنے اور نعمتوں کے حاصل کرنے کا خیال پیدا ہو ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے احکام کی پابندی اور اپنی ناراضگی کے کاموں سے نفرت نصیب فرمائے اور ہمیں کامل یقین عطا فرمائے کہ ہم اس کے کلام پر ایمان و یقین رکھیں ۔ وہ قریب و مجیب ہے وہ دعاؤں کا سننے والا ہے ، وہ جواد ، کریم اور وہاب ہے ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اگر مومن صحیح طور پر اللہ کے عذاب سے واقف ہو جائے تو اپنے گناہوں کی وجہ سے جنت کے حصول کی آس ہی نہ رہے اور اگر کافر اللہ کی رحمت سے کماحقہ واقف ہو جائے تو کسی کو بھی جنت سے مایوسی نہ ہو اللہ نے سو رحمتیں بنائی ہیں جن میں سے صرف ایک بندوں کے درمیان رکھی ہے اسی سے ایک دوسرے پر رحم و کرم کرتے ہیں باقی ننانوے تو صرف اللہ ہی کے پاس ہیں } } ۔ یہ حدیث ترمذی اور مسلم شریف میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2755) ایک اور روایت میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی پیدائش کے وقت ایک کتاب لکھی جو اس کے پاس عرش پر ہے کہ ’ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے ‘ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7404) صحیح مسلم شریف میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے کئے جن میں سے ایک کم ایک سو تو اپنے پاس رکھے اور ایک حصہ زمین پر نازل فرمایا اسی ایک حصے میں مخلوق کو ایک دوسرے پر شفقت و کرم ہے یہاں تک کہ جانور بھی اپنے بچے کے جسم سے اپنا پاؤں رحم کھا کر اٹھا لیتا ہے کہ کہیں اسے تکلیف نہ ہو } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6000) «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ الأنعام کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ»