قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
آپ ان سے کہئے : آؤ! میں تمہیں پڑھ کر سناؤں کہ تمہارے [١٦٥] پروردگار نے تم پر کیا کچھ حرام کیا ہے اور وہ یہ باتیں ہیں کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک [١٦٦] نہ بناؤ۔ اور یہ کہ والدین [١٦٧] سے اچھا سلوک کرو، اور یہ کہ مفلسی کے ڈر [١٦٨] سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو (کیونکہ) ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں تو ان کو بھی ضرور دیں گے، اور یہ کہ بے حیائی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ، خواہ یہ کھلی [١٦٩] ہوں یا چھپی ہوں، اور یہ کہ جس جان کے مارنے کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرو الا یہ کہ حق [١٧٠] کے ساتھ ہو۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کا اللہ نے تمہیں تاکیداً حکم دیا ہے۔ شاید کہ تم عقل سے کام لو
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیتیں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت کو دیکھنا چاہتا ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت تھی تو وہ ان آیتوں کو «ذٰلِکُمْ وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ» (الأنعام:151تا153) تک پڑھے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3070،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” سورۃ الأنعام میں محکم آیتیں ہیں “ پھر یہی آیتیں (الأنعام:151تا153) آپ رضی اللہ عنہ نے تلاوت فرمائیں ۔ { ایک مرتبہ حضور نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے فرمایا : { تم میں سے کوئی شخص ہے جو میرے ہاتھ پر ان تین باتوں کی بیعت کرے } ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا : { جو اسے پورا کرے گا ، وہ اللہ سے اجر پائے گا اور جو ان میں سے کسی بات کو پورا نہ کرے گا تو دنیا میں ہی اسے شرعی سزا دے دی جائے گی اور اگر سزا نہ دی گئی تو پھر اس کا معاملہ قیامت پر ہے اگر اللہ چاہے تو اسے بخش دے چاہے تو سزا دے} } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:318/2:صحیح) بخاری مسلم میں ہے { تم لوگ میرے ہاتھ پر بیعت کرو ، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:18) اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی سلام علیہ سے فرماتا ہے کہ ’ ان مشرکین کو جو اللہ کی اولاد کے قائل ہیں اللہ کے رزق میں سے بعض کو اپنی طرف سے حلال اور بعض کو حرام کہتے ہیں اللہ کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہیں کہہ دیجئیے کہ سچ مچ جو چیزیں اللہ کی حرام کردہ ہیں انہیں مجھ سے سن لو جو میں بذریعہ وحی الٰہی بیان کرتا ہوں تمہاری طرح خواہش نفس ، توہم پرستی اور اٹکل و گمان کی بناء پر نہیں کہتا ‘ ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس کی وہ تمہیں وصیت کرتا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ، یہ کلام عرب میں ہوتا ہے کہ ایک جملہ کو حذف کر دیا پھر دوسرا جملہ ایسا کہہ دیا جس سے حذف شدہ جملہ معلوم ہو جائے اس آیت کے آخری جملے «ذٰلِکُمْ وَصَّاکُم» سے «أَلَّا تُشْرِکُوا» اس سے پہلے کے محذوف جملے «وَصَّاکُمْ» پر دلالت ہوگئی ۔ عرب میں یوں بھی کہہ دیا کرتے ہیں «أَمَرْتُکَ أَلَّا تَقُومَ» بخاری و مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے وہ داخل جنت ہوگا تو میں نے کہا { گو اس نے زنا کیا ہو ، گو اس نے چوری کی ہو ؟ } آپ علیہ السلام نے فرمایا ” ہاں گو اس نے زنا اور چوری کی ہو “ ۔ میں نے پھر یہی سوال کیا مجھے پھر یہی جواب ملا پھر بھی میں نے یہ بات پوچھی اب کے جواب دیا کہ گو شراب نوشی بھی کی ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6443) بعض روایتوں میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے موحد کے جنت میں داخل ہونے کا سن کر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے یہ سوال کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب دیا تھا اور آخری مرتبہ فرمایا تھا { اور ابوذر کی ناک خاک آلود ہو } چنانچہ راوی حدیث جب اسے بیان فرماتے تو یہی لفظ دوہرا دیتے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5727) سنن میں مروی ہے کہ { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ اے ابن آدم تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور میری ذات سے امید رکھے گا میں بھی تیری خطاؤں کو معاف فرماتا رہوں گا خواہ وہ کیسی ہی ہوں کوئی پرواہ نہ کروں گا تو اگر میرے پاس زمین بھر کر خطائیں لائے گا تو میں تیرے پاس اتنی ہی مغفرت اور بخشش لے کر آؤں گا بشرطیکہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو گو تونے خطائیں کی ہوں یہاں تک کہ وہ آسمان تک پہنچ گئی ہوں پھر بھی تو مجھ سے استغفار کرے تو میں تجھے بخش دوں گا ‘ } ۔ (مسند احمد:172/5:حسن لغیرہ) اس حدیث کی شہادت میں یہ آیت آسکتی ہے «اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یٰشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ ۚوَمَنْ یٰشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدِ افْتَرٰٓی اِثْمًا عَظِیْمًا» ۱؎ (4-النساء:48) یعنی ’ مشرک کو تو اللہ مطلق نہ بخشے گا باقی گنہگار اللہ کی مشیت پر ہیں جسے چاہے بخش دے ‘ ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے { جو توحید پر مرے وہ جنتی ہے } ۔ (صحیح مسلم:92) اس بارے میں بہت سی آیتیں اور حدیثیں ہیں -ابن مردویہ میں ہے کہ { اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گو تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں یا تمہیں سولی چڑھا دیا جائے یا تمہیں جلا دیا جائے } - ابن ابی حاتم میں ہے کہ { ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات باتوں کا حکم دیا (١) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا گو تم جلا دیئے جاؤ یا کاٹ دیئے جاؤ یا سولی دے دیئے جاؤ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:8058/5:اسنادہ فیہ جھالتہ) اس آیت میں توحید کا حکم دے کر پھر ماں باپ کے ساتھ احسان کرنے کا حکم ہوا «وَقَضَیٰ رَبٰکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا» ۱؎ (17-الإسراء:23) بعض کی قرأت «وَوَصَّی رَبٰکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا» بھی ہے ۔ قرآن کریم میں اکثر یہ دونوں حکم ایک ہی جگہ بیان ہوئے ہیں جیسے آیت «وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ أُمٰہُ وَہْنًا عَلَیٰ وَہْنٍ وَفِصَالُہُ فِی عَامَیْنِ أَنِ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیرُ وَإِن جَاہَدَاکَ عَلَیٰ أَن تُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِی الدٰنْیَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِیلَ مَنْ أَنَابَ إِلَیَّ ثُمَّ إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ» ۱؎ (31-لقمان:14-15) میں مشرک ماں باپ کے ساتھ بھی بقدر ضرورت احسان کرنے کا حکم ہوا ہے ۔ اور آیت «وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللہَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا» ۱؎ (2-البقرۃ:83) ، میں بھی دونوں حکم ایک ساتھ بیان ہوئے ہیں اور بھی بہت سی اس مفہوم کی آیتیں ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے { سیدنا ابن مسعود فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نماز وقت پر پڑھنا } -میں نے پوچھا پھر ؟ فرمایا : { ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا } ، میں نے پوچھا پھر ؟ فرمایا : { اللہ کی راہ میں جہاد کرنا } -میں اگر اور بھی دریافت کرتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بتا دیتے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5970) ابن مردویہ میں عبادہ بن صامت اور ابودرداء سے مروی ہے کہ { مجھے میرے خلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی کہ اپنے والدین کی اطاعت کر اگرچہ وہ تجھے حکم دیں کہ تو ان کیلئے ساری دنیا سے الگ ہو جائے تو بھی مان لے } ۔ ۱؎ (بیہقی فی شعب الایمان:5589/5:حسن) اس کی سند ضعیف ہے ۔ باپ داداؤں کی وصیت کرکے اولاد اور اولاد کی اولاد کی بات وصیت فرمائی کہ انہیں قتل نہ کرو جیسے کہ شیاطین نے اس کام کو تمہیں سکھا رکھا ہے لڑکیوں کو تو وہ لوگ بوجہ عار کے مار ڈالتے تھے اور بعض لڑکوں کو بھی بوجہ اس کے کہ ان کے کھانے کا سامان کہاں سے لائیں گے ، مار ڈالتے تھے ۔ { سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ” سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ کے ساتھ شریک کرنا حالانکہ اسی اکیلے نے پیدا کیا ہے } ۔ پوچھا پھر کون سا گناہ ہے ؟ فرمایا : { اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ یہ میرے ساتھ کھائے گی } ۔ پوچھا پھر کون سا ہے ؟ فرمایا : { اپنی پڑوس کی عورت سے بدکاری کرنا } پھر حضور نے آیت «وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا» ۱؎ (25-الفرقان:68) کی تلاوت فرمائی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7420) اور آیت میں ہے «وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْـیَۃَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاِیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:31) ’ اپنی اولاد کو فقیری کے خوف سے قتل نہ کرو ‘ ، اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ ’ ہم انہیں روزی دیتے ہیں اور تمہاری روزی بھی ہمارے ذمہ ہے ‘ ۔ یہاں چونکہ فرمایا تھا کہ ’ فقیری کی وجہ سے اولاد کا گلا نہ گھونٹو ‘ تو ساتھ ہی فرمایا ’ تمہیں روزی ہم دیں گے اور انہیں بھی ہم ہی دے رہے ہیں ‘ ۔ پھر فرمایا کسی ظاہر اور پوشیدہ برائی کے پاس بھی نہ جاؤ جیسے اور آیت میں ہے «قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِکُوْا باللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:33) ، یعنی ’ تمام ظاہری ، باطنی برائیاں ، ظلم و زیادتی ، شرک و کفر اور جھوٹ بہتان سب کچھ اللہ نے حرام کر دیا ہے ‘ -اس کی پوری تفسیر آیت «وَذَرُوا ظَاہِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَہُ إِنَّ الَّذِینَ یَکْسِبُونَ الْإِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُوا یَقْتَرِفُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:120) کی تفسیر میں گزر چکی ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے { اللہ سے زیادہ غیرت ولا کوئی نہیں اسی وجہ سے تمام بے حیائیاں اللہ نے حرام کردی ہیں خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہوں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4634) { سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھ لوں تو میں تو ایک ہی وار میں اس کا فیصلہ کر دوں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کا یہ قول بیان ہوا تو فرمایا : { کیا تم سعد کی غیرت پر تعجب کر رہے ہو ؟ واللہ میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور میرا رب مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے ، اسی وجہ سے تمام فحش کام ظاہر و پوشیدہ اس نے حرام کر دیئے ہیں } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7316) { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ ” ہم غیرت مند لوگ ہیں “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { واللہ میں بھی غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے ۔ یہ غیرت ہی ہے جو اس نے تمام بری باتوں کو حرام قرار دے دیا ہے } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:326/2:صحیح وہذا اسناد ضعیف) اس حدیث کی سند ترمذی کی فباء پر ہے ترمذی میں یہ حدیث ہے کہ { میری امت کی عمریں ساٹھ ستر کے درمیان ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2331،قال الشیخ الألبانی:حسن) اس کے بعد کسی کے ناحق قتل کی حرمت کو بیان فرمایا گو وہ بھی فواحش میں داخل ہے لیکن اس کی اہمیت کی وجہ سے اسے الگ کرکے بیان فرما دیا ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ { جو مسلمان اللہ کی توحید اور میری رسالت اقرار کرتا ہو اسے قتل کرنا بجز تین باتوں کے جائز نہیں یا تو شادی شدہ ہو کر پھر زنا کرے یا کسی کو قتل کر دے یا دین کو چھوڑ دے اور جماعت سے الگ ہو جائے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6878) مسلم میں ہے { اس کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کسی مسلمان کا خون حلال نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1676) ابوداؤد اور نسائی میں تیسرا شخص وہ بیان کیا گیا ہے { جو اسلام سے نکل جائے اور اللہ کے رسولوں سے جنگ کرنے لگے اسے قتل کر دیا جائے گا یا صلیب پر چڑھا دیا جائے گا یا مسلمانوں کے ملک سے جلا وطن کردیا جائے گا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4502،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امیرالمؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اس وقت جبکہ باغی آپ رضی اللہ عنہ کو محاصرے میں لیے ہوئے تھے فرمایا : ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کسی مسلمان کا خون بجز ان تین کے حلال نہیں ایک تو اسلام کے بعد کافر ہو جانے والا دوسرا شادی ہو جانے کے بعد زنا کرنے والا اور بغیر قصاص کے کسی کو قتل کر دینے والا -اللہ کی قسم نہ تو میں نے جاہلیت میں زنا کیا نہ اسلام لانے کے بعد ، اور نہ اسلام لانے کے بعد کبھی میں نے کسی اور دین کی تمنا کی اور نہ میں نے کسی کو بلا وجہ قتل کیا ۔ پھر تم میرا خون بہانے کے درپے کیوں ہو ؟ “ ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4502،قال الشیخ الألبانی:صحیح) حربی کافروں میں سے جو امن طلب کرے اور مسلمانوں کے معاہدہ امن میں آجائے اس کے قتل کرنے والے کے حق میں بھی بہت وعید آئی ہے اور اس کا قتل بھی شرعاً حرام ہے ۔ بخاری میں ہے { معاہدہ امن کا قاتل جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کے راستے تک پہنچ جاتی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3166) اور روایت میں ہے { کیونکہ اس نے اللہ کا ذمہ توڑا اس میں ہے پچاس برس کے راستے کے فاصلے سے ہی جنت کی خوشبو پہنچی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1403،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرماتا ہے ’ یہ ہیں اللہ کی وصیتیں اور اس کے احکام تاکہ تم دین حق کو ، اس کے احکام کو اور اس کی منع کردہ باتوں کو سمجھ لو ‘ ۔