فَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل رَّبُّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ
پھر اگر یہ یہود آپ کو جھٹلائیں تو ان سے کہئے کہ : تمہارے پروردگار کی رحمت بہت وسیع ہے (کہ ان تک تم سزا سے بچے ہوئے ہو) ورنہ مجرموں سے اس کا عذاب ٹالا نہیں جاسکتا
مشرک ہو یا کافر توبہ کر لے تو معاف! ’ اب بھی اگر تیرے مخالف یہودی اور مشرک وغیرہ تجھے جھوٹا بتائیں تو بھی تو انہیں میری رحمت سے مایوس نہ کر بلکہ انہیں رب کی رحمت کی وسعت یاد دلا تاکہ انہیں اللہ کی رضا جوئی کی تبلیغ ہو جائے ، ساتھ ہی انہیں اللہ کے اٹل عذابوں سے بچنے کی طرف بھی متوجہ کر ‘ - پس رغبت رہبت امید ڈر دونوں ہی ایک ساتھ سنا دے -قرآن کریم میں امید کے ساتھ خوف اکثر بیان ہوتا ہے اسی سورت کے آخر میں فرمایا «إِنَّ رَبَّکَ سَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (6-الأنعام:165) ’ تیرا رب جلد عذاب کرنے والا ہے اور غفور و رحیم بھی ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَإِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغْفِرَۃٍ لِّلنَّاسِ عَلَیٰ ظُلْمِہِمْ وَإِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیدُ الْعِقَابِ» ۱؎ (13-الرعد:6) ’ تیرا رب لوگوں کے گناہوں پر انہیں بخشنے والا بھی ہے اور وہ سخت تر عذاب کرنیوالا بھی ہے ‘ ۔ ایک آیت میں ارشاد ہے «نَبِّئْ عِبَادِی أَنِّی أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیمُ وَأَنَّ عَذَابِی ہُوَ الْعَذَابُ الْأَلِیمُ» (15-الحجر:49 ، 50) ’ میرے بندوں کو میرے غفور و رحیم ہونے کی اور میرے عذابوں کے بڑے ہی درد ناک ہونے کی خبر پہنچا دے ‘ ۔ اور جگہ ہے «غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیدِ الْعِقَابِ» ۱؎ (40-غافر:3) ’ وہ گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ کا قبول کرنے والا ہے ‘ ۔ نیز کئی آیتوں میں ہے «إِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیدٌ إِنَّہُ ہُوَ یُبْدِئُ وَیُعِیدُ وَہُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ» ۱؎ (85-البروج:12-14) ’ تیرے رب کی پکڑ بڑی بھاری اور نہایت سخت ہے ۔ وہی ابتداء کرتا ہے اور وہی دوبارہ لوٹائے گا وہ غفور ہے ، ودود ہے ، بخشش کرنے والا ہے ، مہربان اور محبت کرنے والا ہے ‘ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیات ہیں ۔