وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
اور جو کھیتی اور مویشی اللہ نے پیدا کئے تھے ان لوگوں نے ان چیزوں [١٤٣] میں (اللہ کے سوا دوسروں کا بھی) حصہ مقرر کردیا۔ اور اپنے گمان باطل سے یوں کہتے ہیں کہ : یہ حصہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے شریکوں کا ہے۔ اب جو حصہ ان کے شریکوں [١٤٤] کا ہوتا وہ تو اللہ کے حصہ میں شامل نہ ہوسکتا تھا اور جو حصہ اللہ کا ہوتا وہ ان کے شریکوں کے حصہ میں شامل ہوسکتا تھا۔ کتنا برا فیصلہ کرتے تھے یہ لوگ
ہدعت کا آغاز مشرکین کی ایک نو ایجاد [ بدعت ] جو کفر و شرک کا ایک طریقہ تھی بیان ہو رہی ہے کہ ’ ہر چیز پیدا کی ہوئی تو ہماری ہے پھر یہ اس میں سے نذرانہ کا کچھ حصہ ہمارے نام کا ٹھہراتے ہیں اور کچھ اپنے گھڑے ہوئے معبودوں کا جنہیں وہ ہمارا شریک بنائے ہوئے ہیں ، اسی کے ساتھ ہی یہ بھی کرتے ہیں کہ اللہ کے نام کا ٹھہرایا ہوا نذرانہ بتوں کے نام والے میں مل گیا تو وہ تو بتوں کا ہوگیا لیکن اگر بتوں کے لیے ٹھہرائے ہوئے میں سے کچھ اللہ کے نام والے میں مل گیا تو اسے جھٹ سے نکال لیتے تھے -کوئی ذبیحہ اپنے معبودوں کے نام کا کریں تو بھول کر بھی اس پر اللہ کا نام نہیں لیتے یہ کیسی بری تقسیم کرتے ہیں ‘ ۔ اولاً تو یہ تقسیم ہی جہالت کی علامت ہے کہ سب چیزیں اللہ کی پیدا کی ہوئی اسی کی ملکیت پھر ان میں سے دوسرے کے نام کی کسی چیز کو نذر کرنے والے یہ کون ؟ جو اللہ لا شریک ہے انہیں اس کے شریک ٹھہرانے کا کیا مقصد ؟ پھر اس ظلم کو دیکھو اللہ کے حصے میں سے تو بتوں کو پہنچ جائے اور بتوں کا حصہ ہرگز اللہ کو نہ پہنچ سکے یہ کیسے بدترین اصول ہیں ۔ ایسی ہی غلطی یہ بھی تھی کہ «وَیَجْعَلُونَ لِلہِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَہُ وَلَہُم مَّا یَشْتَہُونَ» ۱؎ (16-النحل:57) ’ اللہ کے لیے لڑکیاں اور اپنے لیے لڑکے ‘ ، اور جیسے کہ آیت میں ہے «أَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْأُنثَیٰ تِلْکَ إِذًا قِسْمَۃٌ ضِیزَیٰ» ۱؎ (53-النجم:21،22) ’ [ مشرکو ! ] کیا تمہارے لیے تو بیٹے اور خدا کے لیے بیٹیاں جن لڑکیوں سے تم بیزار وہ اللہ کی ہوں ، کیسی بری تقسیم ہے ‘ ۔