سورة الانعام - آیت 123

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا ۖ وَمَا يَمْكُرُونَ إِلَّا بِأَنفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگا دیا ہے کہ وہ اس بستی میں مکرو فریب کرتے رہیں۔[١٣٠] پھر وہ خود ہی اس مکروفریب میں پھنس جاتے ہیں مگر یہ بات سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

بستیوں کے رئیس گمراہ ہو جائیں تو تباہی کی علامت ہوتے ہیں ان آیتوں میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسکین فرماتا ہے اور ساتھ ہی کفار کو ہوشیار کرتا ہے ، فرماتا ہے «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِینَ وَکَفَیٰ بِرَبِّکَ ہَادِیًا وَنَصِیرًا» ۱؎ (25-الفرقان:31) کہ ’ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بستی میں روسائے کفر موجود ہیں جو دوسروں کو بھی دین برحق سے روکتے ہیں اسی طرح ہر پیغمبر علیہ السلام کے زمانے میں اس کی بستی میں کفر کے ستون اور مرکز رہے ہیں لیکن آخر کار و غارت اور تباہ ہوتے ہیں اور نتیجہ ہمیشہ نبیوں کا ہی اچھا رہتا ہے ‘ ۔ جیسے فرمایا کہ ’ ہر نبی کے دشمن ان کے زمانے کے گنہگار رہے ‘ اور آیت میں ہے «وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نٰہْلِکَ قَرْیَۃً أَمَرْنَا مُتْرَفِیہَا فَفَسَقُوا فِیہَا فَحَقَّ عَلَیْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاہَا تَدْمِیرًا» ۱؎ (17-الإسراء:16) ’ ہم جب کسی بستی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کے رئیسوں کو کچھ حکم احکام دیتے ہیں جس میں وہ کھلم کھلا ہماری نافرمانی کرتے ہیں پس اطاعت سے گریز کرنے پر عذابوں میں گھر جاتے ہیں ، وہاں کے شریر لوگ اوج پر آ جاتے ہیں پھر بستی ہلاک ہوتی ہے اور قسمت کا ان مٹ لکھا سامنے آ جاتا ہے ‘ ۔ چنانچہ اور آیتوں میں ہے کہ «وَمَا أَرْسَلْنَا فِی قَرْیَۃٍ مِّن نَّذِیرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوہَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِہِ کَافِرُونَ وَقَالُوا نَحْنُ أَکْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِینَ» ۱؎ (34-سبأ:34-35) ’ جہاں کہیں کوئی پیغمبر آیا وہاں کے رئیسوں اور بڑے لوگوں نے جھٹ سے کہہ دیا کہ ہم تمہارے رسالت کے منکر ہیں ، مال میں اولاد میں ہم تم سے زیادہ ہیں اور ہم اسے بھی مانتے نہیں کہ ہمیں سزا ہو ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «وَکَذٰلِکَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ فِی قَرْیَۃٍ مِّن نَّذِیرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوہَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَیٰ أُمَّۃٍ وَإِنَّا عَلَیٰ آثَارِہِم مٰقْتَدُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:23) ’ ہم نے جس بستی میں جس رسول کو بھیجا وہاں کے بڑے لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے تو جس طریقے پر اپنے بڑوں کو پایا ہے ہم تو اسی پر چلے چلیں گے ‘ ۔ «مَکْرً» سے مراد گمراہی کی طرف بلانا ہے اور اپنی چکنی چپڑی باتوں میں لوگوں کو پھنسانا ہے جیسے کہ قوم نوح کے بارے میں ہے آیت «وَمَکَرُوْا مَکْرًا کُبَّارًا» ۱؎ (71-نوح:22) ۔ اور آیت میں ہے «وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَن نٰؤْمِنَ بِہٰذَا الْقُرْآنِ وَلَا بِالَّذِی بَیْنَ یَدَیْہِ وَلَوْ تَرَیٰ إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِندَ رَبِّہِمْ یَرْجِعُ بَعْضُہُمْ إِلَیٰ بَعْضٍ الْقَوْلَ یَقُولُ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا لَوْلَا أَنتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِینَ قَالَ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا لِلَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا أَنَحْنُ صَدَدْنَاکُمْ عَنِ الْہُدَیٰ بَعْدَ إِذْ جَاءَکُم بَلْ کُنتُم مٰجْرِمِینَ وَقَالَ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا بَلْ مَکْرُ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّکْفُرَ بِ اللہِ وَنَجْعَلَ لَہُ أَندَادًا وَأَسَرٰوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِی أَعْنَاقِ الَّذِینَ کَفَرُوا ہَلْ یُجْزَوْنَ إِلَّا مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ» (34-سبأ:31-33) ’ قیامت کے دن بھی جبکہ یہ ظالم اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرائیں گے جھوٹے لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم تو مسلمان ہو جاتے وہ جواب دیں گے کہ ہم نے تمہیں ہدایت سے کب روکا تھا ؟ تم تو خود گنہگار تھے ، یہ کہیں گے تمہاری دن رات کی فتنہ انگیزیوں نے اور کفر و شرک کی دعوت نے ہمیں گمراہ کر دیا ‘ ۔ «مَکْرً» کے معنی سفیان رحمہ اللہ نے ہر جگہ عمل کے کئے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ ان کے مکر کا وبال انہی پر پڑے گا لیکن انہیں اس کا شعور نہیں ، جن لوگوں کو انہوں نے بہکایا ان کا وبال بھی انہیں کے دوش پر ہوگا ‘ - جیسے فرمان ہے آیت «وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَہُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْ ۡ وَلَیُسْـَٔــلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ» ۱؎ (29-العنکبوت:13) یعنی ’ اپنے بوجھ کے ساتھ ان کے بوجھ بھی ڈھوئیں گے ، جن کو بےعلمی کے ساتھ انہوں نے بہکایا تھا ‘ ۔ جب کوئی نشان اور دلیل دیکھتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ کچھ بھی ہو جب تک اللہ کا پیغام فرشتے کی معرفت خود ہمیں نہ آئے ہم تو باور کرنے والے نہیں ۔ کہا کرتے تھے کہ «وَقَالَ الَّذِینَ لَا یَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَیْنَا الْمَلَائِکَۃُ أَوْ نَرَیٰ رَبَّنَا لَقَدِ اسْتَکْبَرُوا فِی أَنفُسِہِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا کَبِیرًا» ۱؎ (25-الفرقان:21) ’ ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں ہوتے ؟ اللہ ہمیں اپنا دیدار کیوں نہیں دکھاتا ؟ حالانکہ رسالت کے مستحق کی اصلی جگہ کو اللہ ہی جانتا ہے ‘ ۔ ان کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ «وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْآنُ عَلَیٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیمٍ أَہُمْ یَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُم مَّعِیشَتَہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضًا سُخْرِیًّا وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:31-32) ’ ان دونوں بستیوں میں کسی بڑے رئیس پر یہ قرآن کیوں نہ اترا ؟ ‘ جس کے جواب میں اللہ عزوجل نے فرمایا ’ کیا تیرے رب کی رحمت کے تقسیم کرنے والے وہ ہیں ؟ ‘ پس مکے یا طائف کے کسی رئیس پر قرآن کے نازل نہ ہونے سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر کا ارادہ کرتے تھے اور یہ صرف ضد اور تکبر کی بناء پر تھا ۔ جیسے فرمان ہے کہ «وَإِذَا رَآکَ الَّذِینَ کَفَرُوا إِن یَتَّخِذُونَکَ إِلَّا ہُزُوًا أَہٰذَا الَّذِی یَذْکُرُ آلِہَتَکُمْ وَہُم بِذِکْرِ الرَّحْمٰنِ ہُمْ کَافِرُونَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:36) ’ تجھے دیکھتے ہی یہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ کیا یہی ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر کیا کرتا ہے ؟ ‘ یہ لوگ ذکر رحمن کے منکر ہیں ، کہا کرتے تھے کہ «وَإِذَا رَأَوْکَ إِن یَتَّخِذُونَکَ إِلَّا ہُزُوًا أَہٰذَا الَّذِی بَعَثَ اللہُ رَسُولًا» (25-الفرقان:41) ’ اچھا یہی ہیں جنہیں اللہ نے اپنا رسول بنایا ؟ ‘ نتیجہ یہ ہوا کہ ان مسخروں کا مسخرا پن انہی پر الٹا پڑا ، انہیں ماننا ہی پڑا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شریف النسب ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے اور امین ہیں یہاں تک کہ نبوت سے پہلے قوم کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امین کا خطاب ملا تھا - ابوسفیان جیسے ان کافر قریشیوں کے سردار نے بھی دربار ہرقل میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی نسب ہونے اور سچے ہونے کی شہادت دی تھی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7) جس سے شاہ روم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت طہارت نبوت وغیرہ کو مان لیا تھا ۔ مسند کی حدیث میں ہے { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ نے اولاد ابراہیم علیہ السلام سے اسمعیل علیہ السلام کو پسند فرمایا ۔ اولاد اسماعیل علیہ السلام سے بنو کنانہ کو پسند فرمایا ۔ بنو کنانہ سے قریش کو قریش میں سے بنو ہاشم کو اور بنو ہاشم میں سے مجھے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2276) فرمان ہے کہ ’ یکے بعد دیگرے قرنوں میں سے میں سب سے بہتر زمانے میں پیغمبر بنایا گیا ‘ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3557) { ایک مرتبہ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی بعض کہی ہوئی باتیں پہنچیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور لوگوں سے پوچھا { میں کون ہوں ؟ } انہوں نے کہا آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ فرمایا : { میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق میں مجھے بہتر بنایا ہے مخلوق کو جب دو حصوں میں تقسیم کیا تو مجھے ان دونوں میں جو بہتر حصہ تھا اس میں کیا پھر قبیلوں کی تقسیم کے وقت مجھے سب سے بہتر قیبلے میں کیا پھر جب گھرداریوں میں تقسیم کیا تو مجھے سب سے اچھے گھرانے میں بنایا پس میں گھرانے کے اعتبار سے اور ذات کے اعتبار سے تم سب سے بہتر ہوں صلوات اللہ وسلامیہ علیہ } } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:3073 ، ) { جبرائیل علیہ السلام نے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ” میں نے تمام مشرق و مغرب ٹٹول لیا لیکن آپ سے زیادہ افضل کسی کو نہیں پایا “ } ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:176/1:ضعیف) مسند احمد میں ہے { اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں کو دیکھا اور سب سے بہتر دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پایا ۔ پھر مخلوق کے دلوں پر نگاہ ڈالی تو سب سے بہتر دل والے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پائے پس حضور کو اپنا خاص چیدہ رسول بنایا اور اصحاب رضی اللہ عنہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وزیر بنایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے دشمنوں کے دشمن ہیں ۔ پس یہ مسلمان جس چیز کو بہتر سمجھیں وہ اللہ وحدہ لاشریک کے نزدیک بھی بہتر ہے اور جسے یہ برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بری ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:379/1:حسن) ایک باہر کے شخص نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو مسجد کے دروازے سے آتا ہوا دیکھ کر مرعوب ہو کر لوگوں سے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں ؟ لوگوں نے کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے لڑکے عبداللہ بن عباس ہیں رضی اللہ عنہ ۔ تو ان کے منہ سے بےساختہ یہ آیت نکلی کہ « اللہُ أَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہُ» ( الانعام : 124 ) ’ نبوت کی جگہ کو اللہ ہی بخوبی جانتا ہے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ جو لوگ اس عظیم الشان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں شک شبہ کر رہے ہیں اطاعت سے منہ پھیر رہے ہیں انہیں اللہ کے سامنے قیامت کے دن بڑی ذلت اٹھانی پڑے گی دنیا کے تکبر کی سزا خواری کی صورت میں انہیں ملے گی جو ان پر دائمی ہوگی ‘ ۔ جیسے فرمان ہے کہ «إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِینَ» ۱؎ (40-غافر:60) ’ جو لوگ میری عبادت سے جی چراتے ہیں وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں جائیں گے ۔ انہیں ان کے مکر کی سزا اور سخت سزا ملے گی چونکہ مکاروں کی چالیں خفیہ اور ہلکی ہوتی ہیں اس کے بدلے میں عذاب علانیہ اور سخت ہوں گے ۔ یہ اللہ کا ظلم نہیں بلکہ ان کا پورا بدلہ ہے اس دن ساری چھپی عیاریاں کھل جائیں گی ‘ ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ { ہر بد عہد کی رانوں کے پاس قیامت کے دن ایک جھنڈا لہراتا ہوگا اور اعلان ہوتا ہوگا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3186) پس اس دنیا کی پوشیدگی اس طرح قیامت کے دن ظاہر ہوگی ۔ اللہ ہمیں بچائے ۔