بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
بات یہ ہے کہ جس نے بھی برے کام کئے، پھر اس کے گناہوں نے اس کا گھیرا کرلیا تو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے
جہنمی کون؟ مطلب یہ ہے کہ جس کے اعمال سراسر بد ہیں جو نیکیوں سے خالی ہے وہ جہنمی ہے اور جو شخص اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور سنت کے مطابق عمل کرے وہ جنتی ہے ۔ جیسے ایک جگہ فرمایا «لَّیْسَ بِأَمَانِیِّکُمْ وَلَا أَمَانِیِّ أَہْلِ الْکِتَابِ مَن یَعْمَلْ سُوءًا یُجْزَ بِہِ وَلَا یَجِدْ لَہُ مِن دُونِ اللہِ وَلِیًّا وَلَا نَصِیرًا» ۱؎ ( 4 ۔ النسآء : 123 ) یعنی ’ نہ تو تمہارے منصوبے چل سکیں گے اور نہ اہل کتاب کے ۔ ہر برائی کرنے والا اپنی برائی کا بدلہ دیا جائے گا اور ہر بھلائی کرنے والا ثواب پائے گا اپنی نیکو کاری کا اجر پائے گا مگر برے کا کوئی مددگار نہ ہو گا ‘ ۔ کسی مرد کا ، عورت کا ، بھلے آدمی کا کوئی عمل برباد نہ ہو گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہاں برائی سے مطلب کفر ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مراد شرک ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:252/1:ضعیف) ابووائل ابوالعالیہ ، مجاہد ، عکرمہ ، حسن ، قتادہ ، ربیع بن انس رحمہ اللہ علیہم وغیرہ سے یہی مروی ہے ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد کبیرہ گناہ ہیں جو تہ بہ تہ ہو کر دل کو گندہ کر دیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:153/2) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں مراد شرک ہے جس کے دل پر بھی قابض ہو جائے ۔ ربیع بن خثیم رحمہ اللہ کا قول ہے جو گناہوں پر ہی مرے اور توبہ نصیب نہ ہو ۔ مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں گناہوں کو حقیر نہ سمجھا کرو وہ جمع ہو کر انسان کی ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں دیکھتے نہیں ہو کہ اگر کئی آدمی ایک ایک لکڑی لے کر آئیں تو انبار لگ جاتا ہے پھر اگر اس میں آگ لگائی جائے تو بڑی بڑی چیزوں کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:402/1:صحیح لغیرہ) پھر ایمانداروں کا حال بیان فرمایا کہ جو تم جیسا عمل نہیں کرتے بلکہ تمہارے کفر کے مقابلہ میں ان کا ایمان پختہ ہے تمہاری بد اعمالیوں کے مقابلہ میں ان کے پاکیزہ اعمال مستحکم ہیں انہیں ابدی راحتیں اور ہمیشہ کی مسکن جنتیں ملیں گی ۔اور اللہ کے عذاب و ثواب دونوں لازوال ہیں ۔