سورة الانعام - آیت 66

وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ ۚ قُل لَّسْتُ عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور آپ کی قوم نے اسے (قرآن کو) جھٹلا دیا۔ حالانکہ [٧٣] وہ حق ہے۔ آپ ان سے کہئے کہ میں تم پر داروغہ نہیں (کہ تمہیں راہ راست پر لا کے چھوڑوں)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

غلط تاویلیں کرنے والوں سے نہ ملو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ جس قرآن کو اور جس ہدایت و بیان کو تو اللہ عالی کی طرف سے لایا ہے اور جسے تیری قوم قریش جھٹلا رہی ہے حقیقتاً وہ سرا سر حق ہے بلکہ اس کے سوا اور کوئی حق ہے ہی نہیں ان سے کہہ دیجئیے میں نہ تو تمہارا محافظ ہوں نہ تم پر وکیل ہوں ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَقُلِ الْحَقٰ مِن رَّبِّکُمْ فَمَن شَاءَ فَلْیُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْیَکْفُرْ» ۱؎ (18-الکہف:29) ’ کہہ دے کہ یہ تمہارے رب کی طرف سے حق ہے جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے نہ مانے ‘ ، یعنی مجھ پر صرف تبلیغ کرنا فرض ہے ، تمہارے ذمہ سننا اور ماننا ہے ماننے والے دنیا اور آخرت میں نیکی پائیں گے اور نہ ماننے والے دونوں جہان میں بد نصیب رہیں گے ، ہر خبر کی حقیقت ہے وہ ضرور واقع ہونے والی ہے اس کا وقت مقرر ہے ، تمہیں عنقریب حقیقت حال معلوم ہو جائے گی ، واقعہ کا انکشاف ہو جائے گا اور جان لو گے ۔ پھر فرمایا ’ جب تو انہیں دیکھے جو میری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں تو تو ان سے منہ پھیر لے اور جب تک وہ اپنی شیطانیت سے باز نہ آ جائیں تو ان کے ساتھ نہ اٹھو نہ بیٹھو ‘ ۔ اس آیت میں گو فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے لیکن حکم عام ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ہر شخص پر حرام ہے کہ وہ ایسی مجلس میں یا ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھے جو اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہوں ان کے معنی الٹ پلٹ کرتے ہوں اور ان کی بے جا تاویلیں کرتے ہوں ، اگر بالفرض کوئی شخص بھولے سے ان میں بیٹھ بھی جائے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالموں کے پاس بیٹھنا ممنوع ہے حدیث شریف میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے میری امت کو خطا اور بھول سے درگزر فرما لیا ہے اور ان کاموں سے بھی جو ان سے زبردستی مجبور کرکے کرائے جائیں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2045،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس آیت کے اسی حکم کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے «وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آیَاتِ اللہِ یُکْفَرُ بِہَا وَیُسْتَہْزَأُ بِہَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَہُمْ حَتَّی یَخُوضُوا فِی حَدِیثٍ غَیْرِہِ إِنَّکُمْ إِذًا مِثْلُہُمْ» ۱؎ (4-النساء:140) یعنی ’ تم پر اس کتاب میں یہ فرمان نازل ہو چکا ہے کہ جب اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر اور مذاق ہوتا ہوا سنو تو ایسے لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو اور اگر تم نے ایسا کیا تو تم بھی اس صورت میں ان جیسے ہی ہو جاؤ گے ہاں جب وہ اور باتوں میں مشغول ہوں تو خیر ‘ ، مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان کے ساتھ بیٹھے اور ان کی باتوں کو برداشت کر لیا تو تم بھی ان کی طرح ہی ہو ۔ پھر فرمان ہے کہ ’ جو لوگ ان سے دوری کریں ان کے ساتھ شریک نہ ہوں ان کی ایسی مجلسوں سے الگ رہیں وہ بری الذمہ ہیں ان پر ان کا کوئی گناہ نہیں ، ان پر اس بدکرداری کا کوئی بوجھ ان کے سر نہیں ‘ ۔ دیگر مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اگرچہ ان کے ساتھ بیٹھیں لیکن جبکہ ان کے کام میں اور ان کے خیال میں ان کی شرکت نہیں تو یہ بے گناہ ہیں لیکن یہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حکم سورۃ نساء مدنی کی آیت «إِنَّکُمْ إِذًا مِثْلُہُمْ» ۱؎ (4-النساء:140)سے منسوخ ہے ۔ ان مفسرین کی اس تفسیر کے مطابق آیت کے آخری جملے کے یہ معنی ہوں گے کہ ’ ہم نے تمہیں ان سے الگ رہنے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ انہیں عبرت حاصل ہو اور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے گناہ سے باز آ جائیں اور ایسا نہ کریں ‘ ۔