سورة البقرة - آیت 61

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نَّصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ مِن بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖ قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَىٰ بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ ۚ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْ ۗ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب تم نے موسیٰ سے کہا تھا : ’’موسیٰ ! ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر ہرگز صبر نہیں کرسکتے لہٰذا ہمارے لیے اپنے رب سے ان چیزوں کے لیے دعا کرو جو زمین سے پیدا ہوتی ہیں جیسے ساگ، ترکاری، گیہوں، مسور اور پیاز (وغیرہ)۔‘‘ موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں کہا : ’’کیا تم بہتر چیز کے بدلے گھٹیا چیز تبدیل کرنا چاہتے ہو؟ (یہی بات ہے تو) کسی شہر کی طرف نکل چلو، جو تم چاہتے ہو وہاں تمہیں [٧٨] مل جائے گا۔‘‘ اور (انجام کار) ان پر ذلت [٧٩] اور بدحالی مسلط کردی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں آگئے جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرنے لگے تھے۔ اور ان باتوں کا سبب یہ تھا کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرتے اور (حدود شریعت سے) آگے نکل نکل جاتے تھے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

احسان فراموش یہود یہاں بنی اسرائیل کی بے صبری اور نعمت اللہ کی ناقدری بیان کی جا رہی ہے کہ من و سلویٰ جیسے پاکیزہ کھانے پر ان سے صبر نہ ہو سکا اور ردی چیزیں مانگنے لگے ایک طعام سے مراد ایک قسم کا کھانا یعنی من و سلویٰ ہے ۔ «فوم» کے معنی میں اختلاف ہے سیدنا ابن مسعود کی قرأت میں «ثوم» ہے ، مجاہدرحمہ اللہ نے «فوم» کی تفسیر «ثوم» کے ساتھ کی ہے ۔ یعنی لہسن ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ تفسیر مروی ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:193/1) اگلی لغت کی کتابوں میں «فوموالنا» کے معنی «اختبروا» یعنی ہماری روٹی پکاؤ کے ہیں امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر یہ صحیح ہو تو یہ حروف مبدلہ میں سے ہیں جیسے «عاثور شر» ، «عافور شر» ، «اثافی» ، «اثاثی» ، «مفافیر» ، «مغاثیر» وغیرہ جن میں ف سے ث اور ث سے ف بدلا گیا کیونکہ یہ دونوں مخرج کے اعتبار سے بہت قریب ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» (تفسیر ابن جریر الطبری:130/2) اور لوگ کہتے ہیں فوم کے معنی گیہوں کے ہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہی تفسیر منقول ہے اور احیحہ بن جلاح کے شعر میں بھی فوم گیہوں کے معنی میں آیا ہے بنی ہاشم کی زبان میں فوم گیہوں کے معنی میں مستعمل تھا ۔ فوم کے معنی روٹی کے بھی ہیں بعض نے سنبلہ کے معنی کئے ہیں ۔ حضرت قتادہ اور عطا رحمہ اللہ علیہما فرماتے ہیں جس اناج کی روٹی پکتی ہے اسے فوم کہتے ہیں بعض کہتے ہیں فوم ہر قسم کے اناج کو کہتے ہیں موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈانٹا کہ تم ردی چیز کو بہتر کے بدلے کیوں طلب کرتے ہو ؟ پھر فرمایا شہر میں جاؤ وہاں یہ سب چیزیں پاؤ گے جمہور کی قرأت «مصرا» ہی ہے اور تمام قرأتوں میں یہی لکھا ہوا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ شہروں میں سے کسی شہر میں چلے جاؤ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:194/1) سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا ابن مسعود سے مصر کی قراء ت بھی ہے اور اس کی تفسیر مصر شہر سے کی گئی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مصراً سے بھی مراد مخصوص شہر مصر لیا گیا ہو اور یہ الف مصرا کا ایسا ہو جیسا «قواریرا قواریرا» (76-الإنسان:15-16)میں ہے مصر سے مراد عام شہر لینا ہی بہتر معلوم ہوتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ جو چیز تم طلب کرتے ہو یہ تو آسان چیز ہے جس شہر میں جاؤ گے یہ تمام چیزیں وہاں پا لو گے میری دعا کی بھی کیا ضرورت ہے ؟ کیونکہ ان کا یہ قول محض تکبر سرکشی اور بڑائی کے طور پر تھا اس لیے انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پاداش عمل مطلب یہ ہے کہ ذلت اور مسکینی ان پر کا مقدر بنا دی گئی ۔ اہانت و پستی ان پر مسلط کر دی گئی جزیہ ان سے وصول کیا گیا مسلمانوں کے قدموں تلے انہیں ڈال دیا گیا فاقہ کشی اور بھیک کی نوبت پہنچی اللہ کا غضب و غصہ ان پر اترا “ بَآءَ “ کے معنی لوٹنے اور “ رجوع کیا “ کے ہیں بَآءَ کبھی بھلائی کے صلہ کے ساتھ اور کبھی برائی کے صلہ کے ساتھ آتا ہے یہاں برائی کے صلہ کے ساتھ ہے یہ تمام عذاب ان کے تکبر عناد حق کی قبولیت سے انکار ، اللہ کی آیتوں سے کفر انبیاء اور ان کے تابعداروں کی اہانت اور ان کے قتل کی بنا پر تھا اس سے زیادہ بڑا کفر کون سا ہو گا ؟ کہ اللہ کی آیتوں سے کفر کرتے اور اس کے نبیوں علیہ السلام کو بلاوجہ قتل کرتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تکبر کے معنی حق کو چھپانے اور لوگوں کو ذلیل سمجھنے کے ہیں ۔ (صحیح مسلم:91) ۔ مالک بن مرارہ رہاوی رضی اللہ عنہ ایک روز خدمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں خوبصورت آدمی ہوں میرا دل نہیں چاہتا کہ کسی کی جوتی کا تسمہ بھی مجھ سے اچھا ہو تو کیا یہ تکبر اور سرکشی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تکبر اور سرکشی حق کو رد کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے ۔ (مسند احمد:385/1:صحیح) چونکہ بنی اسرائیل کا تکبر کفرو قتل انبیاء تک پہنچ گیا تھا اس لیے اللہ کا غضب ان پر لازم ہو گیا ۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک ایک بنی اسرائیل ان میں موجود تین تین سو نبیوں کو قتل کر ڈالتے تھے پھر بازاروں میں جا کر اپنے لین دین میں مشغول ہو جاتا ۔ ( ابوداؤد طیالسی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت کے دن اس شخص کو ہو گا جسے کسی نبی نے قتل کیا ہو یا اس نے کسی نبی کو مار ڈالا ہو اور گمراہی کا وہ امام جو تصویریں بنانے والا یعنی مصور ہو گا ۔(مسند احمد:47/1:صحیح) یہ ان کی نافرمانیوں اور ظلم و زیادتی کا بدلہ تھا یہ دوسرا سبب ہے کہ وہ منع کئے ہوئے کام ہی کرتے تھے اور حد سے بڑھ جاتے تھے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»