قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ
آپ کہیے کہ : میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں
خالق، پرورش کنندہ، مالک، حکمران، معبود حقیقی اور پناہ دہندہ اس میں اللہ تعالیٰ عزوجل کی تین صفتیں بیان ہوئی ہیں ، پالنے اور پرورش کرنے کی ، مالک اور شہنشاہ ہونے کی ، معبود اور لائق عبادت ہونے کی تمام چیزیں اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں اسی کی ملکیت میں ہیں اور اسی کی غلامی میں مشغول ہیں ، پس وہ حکم دیتا ہے کہ ان پاک اور برتر صفات والے اللہ کی پناہ میں آ جائے جو بھی پناہ اور بچاؤ کا طالب ہو ، شیطان جو انسان پر مقرر ہے اس کے وسوسوں سے وہی بچانے والا ہے ، شیطان ہر انسان کے ساتھ ہے ۔ برائیوں اور بدکاریوں کو خوب زینت دار کر کے لوگوں کے سامنے وہ پیش کرتا رہتا ہے اور بہکانے میں راہ راست سے ہٹانے میں کوئی کمی نہیں کرتا ۔ اس کے شر سے وہی محفوظ رہ سکتا ہے جسے اللہ بچا لے ۔ صحیح حدیث میں ہے {تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک شیطان ہے لوگوں نے کہا کیا آپ کے ساتھ بھی آپ نے فرمایا : ” ہاں ! لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی ہے پس میں سلامت رہتا ہوں وہ مجھے صرف نیکی اور اچھائی کی بات ہی کہتا ہے “ } ۱؎ ۔ (صحیح مسلم:2814) بخاری و مسلم کی اور حدیث میں {سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی زبانی ایک واقعہ منقول ہے جس میں بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف میں تھے تو ام المؤمنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس رات کے وقت آئیں جب واپس جانے لگیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی پہنچانے کے لیے ساتھ چلے راستے میں دو انصاری صحابی مل گئے جو آپ کو بیوی صاحبہ کے ساتھ دیکھ کر جلدی چل دیے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دے کر ٹھہرایا اور فرمایا : ”سنو ! میرے ساتھ میری بیوی صفیہ بنت حی ہیں“ ، انہوں نے کہا سبحان اللہ یا رسول اللہ ! اس فرمان کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”انسان کے خون کے جاری ہونے کی جگہ شیطان گھومتا پھرتا رہتا ہے ، مجھے خیال ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں وہ کوئی بدگمانی نہ ڈال دے“} ۱؎ (صحیح بخاری:2035) حافظ ابو یعلیٰ موصلی رحمہ اللہ نے ایک حدیث وارد کی ہے جس میں ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ شیطان اپنا ہاتھ انسان کے دل پر رکھے ہوئے ہے اگر یہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تب اس کا ہاتھ ہٹ جاتا ہے اور اگر یہ ذکر اللہ بھول جاتا ہے تو وہ اس کے دل پر پورا قبضہ کر لیتا ہے ، یہی «وَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ» ہے ۔} ۲؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:1367) ، یہ حدیث غریب ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گدھے پر سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے ایک صحابی آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے گدھے نے ٹھوکر کھائی تو ان کے منہ سے نکلا شیطان برباد ہو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یوں نہ کہو اس سے شیطان پھول کر بڑا ہو جاتا ہے ۳؎ ، (مسند احمد:71/5:صحیح) اور کہتا ہے کہ میں نے اپنی قوت سے گرا دیا اور جب تم «بسم اللہ» کہو تو وہ گھٹ جاتا ہے یہاں تک مکھی کہ برابر ہو جاتا ہے “ ، اس سے ثابت ہوا کہ ذکر اللہ سے شیطان پست اور مغلوب ہو جاتا ہے اور اس کے چھوڑ دینے سے وہ بڑا ہو جاتا ہے اور غالب آ جاتا ہے} ۔ مسند احمد میں ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ”جب تم میں سے کوئی مسجد میں ہوتا ہے اس کے پاس شیطان آتا ہے اور اسے تھپکتا اور بہلاتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے جانور کو بہلاتا ہو پھر اگر وہ خاموش رہا تو وہ ناک میں نکیل یا منہ میں لگام چڑھا دیتا ہے“ } ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان فرما کر فرمایا : تم خود اسے دیکھتے ہو نکیل والا تو وہ ہے جو ایک طرف جھکا کھڑا ہو اور اللہ کا ذکر نہ کرتا ہو ۱؎ (مسند احمد:330/2:اسنادہ قوی) اور لگام والا وہ ہے جو منہ کھولے ہوئے ہو اور اللہ کا ذکر نہ کرتا ہو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: شیطان ابن آدم کے دل پر چٹکی مارے ہوئے ہے جہاں یہ بھولا اور غفلت کی کہ اس نے وسوسے ڈالنے شروع کئے اور جہاں اس نے ذکر اللہ کیا اور یہ پیچھے ہٹا ۔ سلیمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھ سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ شیطان راحت و رنج کے وقت انسان کے دل میں سوراخ کرنا چاہتا ہے یعنی اسے بہکانا چاہتا ہے اگر یہ اللہ کا ذکر کرے تو یہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ شیطان برائی سکھاتا ہے جہاں انسان نے اس کی مان لی پھر ہٹ جاتا ہے ۔ پھر فرمایا : جو وسوسے ڈالتا ہے لوگوں کے سینے میں ، لفظ «ناس» جو انسان کے معنی میں ہے اس کا اطلاق جنوں پر بھی بطور غلبہ کے آ جاتا ہے ۔ قرآن میں اور جگہ ہے «بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ» ۲؎ (72-الجن:6) کہا گیا ہے تو جنات کو لفظ «ناس» میں داخل کر لینے میں کوئی قباحت نہیں ، غرض یہ ہے کہ شیطان جنات کے اور انسان کے سینے میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے ۔ اس کے بعد کے جملے میں «مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ» کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جن کے سینوں میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے وہ جن بھی ہیں اور انسان بھی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ وسواس ڈالنے والا خواہ کوئی جن ہو خواہ کوئی انسان۔ جیسے اور جگہ ہے «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیَاطِینَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ یُوحِی بَعْضُہُمْ إِلَیٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبٰکَ مَا فَعَلُوہُ فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:112) یعنی ’اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن انسانی اور جناتی شیطان بنائے ہیں ایک دوسرے کے کان میں دھوکے کی باتیں بنا سنوار کر ڈالتے رہتے ہیں‘ ۔ مسند احمد میں ہے {سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں آیا اور بیٹھ گیا ، آپ نے فرمایا : ”نماز پڑھی ؟“ میں نے کہا نہیں ، فرمایا : ”کھڑے ہو جاؤ اور دو رکعت ادا کر لو“ ، میں اٹھا اور دو رکعت پڑھ کر بیٹھ گیا ، آپ نے فرمایا : ”اے ابوذر ! اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو انسان شیطانوں اور جن شیطانوں سے“ ، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! کیا انسانی شیطان بھی ہوتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ”ہاں“ ، ۱؎ (سنن نسائی:5509،قال الشیخ الألبانی:ضعیف الإسناد) میں نے کہا : یا رسول اللہ ! نماز کیسی چیز ہے ، آپ نے ارشاد فرمایا : ”بہترین چیز ہے ، جو چاہے کم کرے جو چاہے اس عمل کو زیادہ کرے“ ، میں نے پوچھا : روزہ ؟ فرمایا : ”کافی ہونے والا فرض ہے اور اللہ کے پاس اجر و ثواب لا انتہا ہے“ ، میں نے پھر پوچھا : صدقہ ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”بہت ہی بڑھا چڑھا کر کئی گنا کر کے بدلہ دیا جائے گا“ ، میں نے پھر عرض کی : یا رسول اللہ ! کون سا صدقہ افضل ہے ؟ فرمایا : ”باوجود مال کی کمی کے صدقہ کرنا یا چپکے سے چھپا کر کسی مسکین فقیر کے ساتھ سلوک کرنا“ ، میں نے سوال کیا : یا رسول اللہ ! سب سے پہلے نبی کون تھے ؟ آپ نے فرمایا : ”آدم علیہ السلام“ ، میں نے پوچھا کیا وہ نبی تھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ہاں وہ نبی تھے اور وہ بھی وہ جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی“ ، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! رسول کتنے ہوئے ؟ فرمایا : ”تین سو کچھ اوپر دس بہت بڑی جماعت“ اور کبھی فرمایا : ”تین سو پندرہ“ ، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ان سب سے بڑی عظمت والی آیت کون سی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”آیت الکرسی « اللہُ لَا إِلَـہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیٰ الْقَیٰومُ لَا تَأْخُذُہُ سِنَۃٌ وَلَا نَوْمٌ لَّہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ مَن ذَا الَّذِی یَشْفَعُ عِندَہُ إِلَّا بِإِذْنِہِ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أَیْدِیہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا یُحِیطُونَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ کُرْسِیٰہُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا یَئُودُہُ حِفْظُہُمَا وَہُوَ الْعَلِیٰ الْعَظِیمُ» } ۲؎ (2-البقرۃ:255)} ۳؎ (مسند احمد:178/5:ضعیف) یہ حدیث نسائی میں بھی ہے اور ابوحاتم بن حبان کی صحیح ابن حبان میں تو دوسری سند سے دوسرے الفاظ کے ساتھ یہ حدیث بہت بڑی ہے ۔ «فَاللہُ اَعْلَمُ» مسند احمد کی ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ {ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے دل میں تو ایسے ایسے خیالات آتے ہیں کہ ان کا زبان سے نکالنا مجھ پر آسمان سے گر پڑنے سے بھی زیادہ برا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”«اللہُ اکبر اللہُ اکبر» اللہ ہی کے لیے حمد و ثناء ہے جس نے شیطان کے مکر و فریب کو وسوسے میں ہی لوٹا دیا“} ، یہ حدیث ابوداؤد اور نسائی میں بھی ہے ۱؎ ۔ (سنن ابوداود:5112،قال الشیخ الألبانی:صحیح) «الْحَمْدُ لِلّٰہ» اللہ تعالیٰ کے احسان سے یہ تفسیر ختم ہوئی ۔ «وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» اللہ کے فضل و کرم سے تیسویں پارے کی تفسیر بھی ختم ہوئی اور تفسیر ابن کثیر کا ترجمہ تفسیر محمدی بالکل کامل ہو گیا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے پاک کلام کی صحیح سمجھ دے اور اس پر عمل نصیب فرمائے اور پھر قبول کرے ۔ «آمین» «وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ . وَصَلَّی اللہُ عَلَی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَصَحْبِہِ أَجْمَعِینَ . وَرَضِیَ اللہُ عَنِ الصَّحَابَۃِ أَجْمَعِینَ»