وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ ۖ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِن شَيْءٍ ۚ وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا
اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت آپ کے شامل حال نہ ہوتی تو (انصار کے) ایک گروہ نے تو ارادہ کر ہی [١٥١] لیا تھا کہ آپ کو بہکا دیں۔ حالانکہ واپنے آپ ہی کو بہکا رہے ہیں اور وہ آپ کا کچھ بگاڑ بھی نہیں سکتے کیونکہ اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی ہے اور آپ کو وہ کچھ سکھلا دیا جو آپ نہیں جانتے تھے، یہ آپ پر اللہ کا بہت ہی بڑا فضل ہے
. اس کے بعد کی«وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَیْکَ وَرَحْمَتُہُ لَہَمَّت طَّائِفَۃٌ مِّنْہُمْ أَن یُضِلٰوکَ وَمَا یُضِلٰونَ إِلَّا أَنفُسَہُمْ» ۱؎ (4-النساء:113) کا تعلق بھی اسی واقعہ سے ہے یعنی سیدنا لبید بن عروہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے بنوابیرق کے چوروں کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے برات اور ان کی پاکدامنی کا اظہار کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلیت سے دور رکھنے کا سارا کام پورا کر لیا تھا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی عصمت کا حقیقی نگہبان ہے آپ کو اس خطرناک موقعہ پر خائنوں کی طرف داری سے بچا لیا اور اصلی واقعہ صاف کر دیا ۔ کتاب سے مراد قرآن اور حکم سے مراد سنت ہے ۔ نزول وحی سے پہلے آپ جو نہ جانتے تھے ان کا علم پروردگار نے آپ کو بذریعہ وحی کر دیا جیسے اور آیت میں ہے«وَکَذٰلِکَ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا کُنتَ تَدْرِی مَا الْکِتَابُ وَلَا الْإِیمَانُ وَلٰکِن جَعَلْنَاہُ نُورًا نَّہْدِی بِہِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّکَ لَتَہْدِی إِلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ » ۱؎ (42-الشوری:52) اور آیت میں ہے«وَمَا کُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ یٰلْقٰٓی اِلَیْکَ الْکِتٰبُ اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ ظَہِیْرًا لِّـلْکٰفِرِیْنَ» ۱؎ (28-القصص:86) اسی لیے یہاں بھی فرمایا ۔ یہ سب باتیں اللہ کا فضل ہیں جو آپ کے شامل حال ہے ۔