وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا
اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز [١٣٨] مختصر کرلینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں تشویش میں ڈال دیں گے۔ کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں
صلوۃ قصر ؟ فرمان الٰہی ہے کہ تم کہیں سفر میں جا رہے ہو ۔ یہی الفاظ سفر کے لیے سورۃ مزمل میں بھی آئے ہیں«عَلِمَ أَن سَیَکُونُ مِنکُم مَّرْضَیٰ ۙ وَآخَرُونَ یَضْرِبُونَ فِی الْأَرْضِ یَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللہِ » ۱؎ (73-المزمل:20) ۔ تو تم پر نماز کی تخفیف کرنے میں کوئی گناہ نہیں ، یہ کمی یا تو کمیت میں یعنی بجائے چار رکعت کے دو رکعت ہے جیسے کہ جمہور نے اس آیت سے سمجھا ہے گو پھر ان میں بعض مسائل میں اختلاف ہوا ہے بعض تو کہتے ہیں یہ شرط ہے کہ سفر اطاعت کا ہو مثلاً جہاد کے لیے یا حج و عمرے کے لیے یا طلب و زیارت کے لیے وغیرہ ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما عطاء ، یحییٰ رحمہ اللہ علیہما اور ایک روایت کی رو سے امام مالک رحمہ اللہ کا یہی قول ہے ، کیونکہ اس سے آگے فرمان ہے اگر تمہیں کفار کی ایذاء رسانی کا خوف ہو ، بعض کہتے ہیں اس قید کی کوئی ضرورت نہیں کہ سفر قربت الٰہیہ کا ہو بلکہ نماز کی کمی ہر مباح سفر کے لیے ہے جیسے اضطرار اور بے بسی کی صورت میں مردار کھانے کی اجازت ہے ۔ ہاں یہ شرط ہے کہ سفر معصیت کا نہ ہو ، امام شافعی ، امام احمد رحمہ اللہ علیہما وغیرہ ائمہ کا یہی قول ہے ، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں تجارت کے سلسلے میں دریائی سفر کرتا ہوں تو آپ نے اسے دو رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا ، یہ حدیث مرسل ہے ۔ بعض لوگوں کا مذہب ہے کہ ہر سفر میں نماز کو قصر کرنا جائز ہے سفر خواہ مباح ہو خواہ ممنوع ہو یہاں تک کہ اگر کوئی ڈاکہ ڈالنے کے لیے اور مسافروں کو ستانے کے لیے نکلا ہوا ہے اسے بھی نماز قصر کرنے کی اجازت ہے ، ابوحنیفہ ثوری اور داؤد رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے کہ آیت عام ہے ، لیکن یہ قول جمہور کے قول کے خلاف ہے ۔ کفار سے ڈر کی جو شرط لگائی ہے یہ باعتبار اکثریت کے ہے آیت کے نازل ہونے کے وقت چونکہ عموماً یہی حال تھا اس لیے آیت میں بھی اسے بیان کر دیا گیا ، ہجرت کے بعد سفر مسلمانوں کے سب کے سب خوف والے ہی ہوتے تھے قدم قدم پر دشمن کا خطرہ رہتا تھا بلکہ مسلمان سفر کے لیے نکل ہی نہ سکتے تھے بجز اس کے کہ یا تو جہاد کو جائیں یا کسی خاص لشکر کے ساتھ جائیں اور یہ قاعدہ ہے کہ جب منطوق بہ اعتبار غالب کے آئے تو اس کا مفہوم معتبر نہیں ہوتا ۔ جیسے اور آیت میں ہے«وَلَا تُکْرِہُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصٰنًا» ۱؎ (24-النور:33) ’ اپنی لونڈیوں کو بدکاری کے لیے مجبور نہ کرو اگر وہ پاکدامنی کرنا چاہیں ۔ ‘ اور جیسے فرمایا«وَرَبَائِبُکُمُ اللَّاتِی فِی حُجُورِکُم مِّن نِّسَائِکُمُ » ۱؎ (4-النساء:23) ’ ان کی بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں ہیں جن عورتوں سے تم نے صحبت کی ہے ۔ ‘ پس جیسے کہ ان دونوں آیتوں میں قید کا بیان ہے لیکن اس کے ہونے پر ہی حکم کا دارومدار نہیں بلکہ بغیر اس کے بھی حکم وہی ہے یعنی لونڈیوں کو بدکاری کے لیے مجبور کرنا حرام ہے چاہے وہ پاکدامنی چاہتی ہوں یا نہ چاہتی ہو ۔ اسی طرح اس عورت کی لڑکی حرام ہے جس سے نکاح ہوکر صحبت ہو گئی ہو خواہ وہ اسکی پرورش میں ہو یا نہ ہو ، حالانکہ دونوں جگہ قرآن میں یہ قید موجود ہے ، پس جس طرح ان دونوں موقعوں میں بغیر ان قیود کے بھی حکم یہی ہے اسی طرح یہاں بھی گو خوف نہ ہو تو بھی محض سفر کی وجہ سے نماز کو قصر کرنا جائز ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ یعلیٰ بن امیہ رحمہ اللہ نے { سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نماز کی تخفیف کا حکم تو خوف کی حالت میں ہے اور اب تو امن ہے ؟ عمر نے جواب دیا کہ یہی خیال مجھے ہوا تھا اور یہی سوال میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا تو آپ نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا صدقہ ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے تم اس کے صدقے کو قبول کرو ۔ } مسلم اور سنن وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے بالکل صحیح روایت ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:686) ابوحنظلہ حذاء رحمہ اللہ نے { سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سفر کی نماز کا پوچھا تو آپ نے فرمایا دو رکعت ہیں انہوں نے کہا قرآن میں تو خوف کے وقت دو رکعت ہیں اور اس وقت تو پوری طرح امن و امان ہے تو آپ نے فرمایا یہی سنت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ۔ } ۱؎ (ابن ابی شیبہ:337/2:صحیح) ایک اور شخص کے سوال پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا آسمان سے تو یہ رخصت اتر چکی ہے اب اگر تم چاہو تو اسے لوٹا دو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں { مکہ اور مدینہ کے درمیان ہم نے باوجود امن کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو رکعت پڑھیں } ۱؎ (سنن ترمذی:547،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکے کی طرف چلے تو اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ تھا اور آپ برابر دو رکعت ہی ادا فرماتے رہے ۔ } بخاری کی حدیث میں ہے کہ { واپسی میں بھی یہی دو رکعت آپ پڑھتے رہے اور مکے میں اس سفر میں آپ نے دس روز قیام کیا تھا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1081) مسند احمد میں سیدنا حارثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ { میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منی میں ظہر کی اور عصر کی نماز دو دو رکعت پڑھی ہیں حالانکہ اس وقت ہم بکثرت تھے اور نہایت ہی پر امن تھے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1083) صحیح بخاری میں ہے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں { میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اورسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ [ سفر میں ] دو رکعت پڑھی ہیں } لیکن اپنی خلافت کے آخری زمانے میں پوری پڑھنے لگے ہیں ۔ بخاری کی روایت میں ہے کہ جب سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی چار رکعات کا ذکر آیا تو آپ نے «اناللہ»الخ ، پڑھ کر فرمایا { میں نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی منی میں دو رکعت پڑھی ہیں اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی کاش کہ بجائے ان چار رکعات کے میرے حصے میں دو ہی مقبول رکعات آئیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1084) پس یہ حدیثیں کھلم کھلا دلیل ہیں اس بات کی کہ سفر کی دو رکعات کے لیے خوف کا ہونا شرط نہیں بلکہ نہایت امن و اطمینان کے سفر میں بھی دو گانہ ادا کر سکتا ہے ۔ اسی لیے بعض علماء کرام نے فرمایا ہے کہ یہاں کیفیت میں یعنی قرآت ، قومہ ، رکوع ، سجود وغیرہ میں قصر اور کمی مراد ہے نہ کہ کمیت میں یعنی تعداد رکعات میں تخفیف کرنا ، ضحاک ، مجاہد اور سدی رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے جیسے کہ آ رہا ہے ، اس کی ایک دلیل امام مالک رحمہ اللہ کی روایت کردہ یہ حدیث بھی ہے کہ { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نماز دو دو رکعتیں ہی سفر حضر میں فرض کی گئی تھی پھر سفر میں تو وہی دو رکعتیں رہیں اور اقامت کی حالت میں دو اور بڑھا دی گئیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:350) پس علماء کی یہ جماعت کہتی ہے کہ اصل نماز دو رکعتیں تھی تو پھر اس آیت میں قصر سے مراد کمیت یعنی رکعتوں کی تعداد میں کمی کیسے ہو سکتی ہے ؟ اس قول کی بہت بڑی تائید صراحتاً اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو مسند احمد میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہے کہ { بزبان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر کی دو رکعتیں ہیں اور ضحیٰ کی نماز بھی دو رکعت ہے اور عید الفطر کی نماز بھی دو رکعت ہے اور جمعہ کی نماز بھی دو رکعت ہے یہ یہی پوری نماز ہے قصر والی نہیں ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1063،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث نسانی ، ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان میں بھی ہے اس کی سند بشرط مسلم ہے ۔ اس کے راوی ابن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت ہے جیسے کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں لکھا ہے اور خود اس روایت میں اور اس کے علاوہ بھی صراحتاً موجود ہے اور یہی ٹھیک بھی ہے ان شاءاللہ ۔ گو بعض محدثین سننے پر فیصلہ دینے کے قائل نہیں ، لیکن اسے مانتے ہوئے بھی اس سند میں کمی واقع نہیں ہوتی کیونکہ بعض طرق میں ابن ابی لیلیٰ کا ایک ثقہ سے اور ان کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سننا مروی ہے ، اور ابن ماجہ میں ان کا کعب بن عجرہ سے روایت کرنا بھی مروی ہے ۔ «فَاللہُ اَعْلَمُ» مسلم وغیرہ میں { سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی نماز کو اقامت کی حالت میں چار رکعت فرض کی ہے اور سفر میں دو رکعت اور خوف میں ایک رکعت ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:687) پس جیسے کہ قیام میں اس سے پہلے اور اس کے پیچھے نماز پڑھتے تھے یا پڑھی جاتی تھی اسی طرح سفر میں بھی اور اس روایت میں اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت میں جو اوپر گذری کہ حضر میں اللہ تعالیٰ نے دو رکعتیں ہی فرض کی تھیں گویا منافات نہیں اس لیے کہ اصل دو ہی تھیں بعد میں دو اور بڑھا دی گئیں پھر حضر کی چار رکعت ہو گئیں تو اب کہہ سکتے ہیں کہ اقامت کی حالت میں فرض چار رکعتیں ہیں ۔ جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس روایت میں ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» 1۔ الغرض یہ دونوں روایتیں اسے ثابت کرتی ہیں کہ سفر میں دو رکعت نماز ہی پوری نماز ہے کم نہیں اور یہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ثابت ہو چکا ہے ۔ مراد اس میں قصر کمیت ہے جیسے کہ صلوٰۃ خوف میں ہے اسی لیے فرمایا ہے اگر تم ڈرو اس بات سے کہ کافر تمہیں فتنے میں ڈال دیں گے اور اس کے بعد فرمایا جب تو ان میں ہو اور نماز پڑھو تو بھی ۔ پھر قصر کا مقصود صفت اور کیفیت بھی بیان فرما دی امام المحدثین بخاری رحمہ اللہ نے کتاب صلوٰۃ خوف کو اسی آیت «وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْأَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاۃِ إِنْ خِفْتُمْ أَن یَفْتِنَکُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا ۚ إِنَّ الْکَافِرِینَ کَانُوا لَکُمْ عَدُوًّا مٰبِینًا» ۱؎ (4-النساء:101) تک لکھ کر شروع کیا ہے ، ضحاک رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ لڑائی کے وقت ہے انسان اپنی سواری پر نماز دو تکبیریں پڑھ لے اس کا منہ جس طرف بھی ہو اسی طرف صحیح ہے ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سفر میں جب تو نے دو رکعت پڑھیں تو وہ قصر کی پوری مقدار ہے ہاں جب کافروں کی فتنہ انگیزی کا خوف ہو تو ایک ہی رکعت قصر ہے اور یہ بجز ایسے خوف کے وقت کے حلال نہیں ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس آیت سے مراد وہ دن ہے جبکہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عسفان میں تھے اور مشرک ضجنان میں تھے ایک دوسرے سے برسر پیکار بالکل تیار ادھر ظہر کی نماز کا وقت آگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ حسب معمول چار رکعتیں پوری ادا کیں پھر مشرکین نے سامان و اسباب کو لوٹ لینے کر ارادہ کیا ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5895/3) ابن جریر اسے مجاہد اور سدی رحمہ اللہ علیہما اور سیدنا جابر اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں اور اسی کو اختیار کرتے ہیں اور اسی کو کہتے ہیں کہ یہی ٹھیک ہے ۔ سیدنا خالد بن اسید سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے کہتے ہیں صلوٰۃ خوف کے قصر کا حکم تو ہم کتاب اللہ میں پاتے ہیں لیکن صلوٰۃ مسافر کے قصر کا حکم کتاب اللہ میں نہیں ملتا تو { سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جواب دیتے ہیں ہم نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں نماز کو قصر کرتے ہوئے پایا اور ہم نے بھی اس پر عمل کیا ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1066،قال الشیخ الألبانی:صحیح) خیال فرمائیے کہ اس میں قصر کا اطلاق صلوٰۃ خوف پر کیا اور آیت سے مراد بھی صلوٰۃ خوف لی اور صلوٰۃ مسافر کو اس میں شامل نہیں کیا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اس کا اقرار کیا ۔ اس آیت سے مسافرت کی نماز کا قصر بیان نہیں فرمایا بلکہ اس کے لیے فعل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سند بتایا ۔ اس سے زیادہ صراحت والی روایت ابن جریر کی ہے کہ سماک رحمہ اللہ آپ سے صلوٰۃ پوچھتے ہیں آپ فرماتے ہیں سفر کی نماز دو رکعت ہے اور یہی دو رکعت سفر کی پوری نماز ہے قصر نہیں ، قصر تو صلوۃ خوف میں ہے کہ امام ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھاتا ہے دوسری جماعت دشمن کے سامنے ہے پھر یہ چلے گئے وہ آ گئے ایک رکعت امام نے انہیں پڑھائی تو امام کی دو رکعت ہوئیں اور ان دونوں جماعتوں کی ایک ایک رکعت ہوئی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10332)