إِلَّا الَّذِينَ يَصِلُونَ إِلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ أَوْ جَاءُوكُمْ حَصِرَتْ صُدُورُهُمْ أَن يُقَاتِلُوكُمْ أَوْ يُقَاتِلُوا قَوْمَهُمْ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ ۚ فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلًا
البتہ اس حکم سے وہ منافق مستثنیٰ ہیں [١٢٤] جو ایسی قوم سے جاملیں جس سے تمہارا معاہدہ ہوچکا ہو یا ایسے منافق بھی مستثنیٰ ہیں جو تمہارے پاس دل برداشتہ آتے ہیں وہ نہ تمہارے خلاف لڑنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنی قوم سے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو انہیں تم پر مسلط کردیتا پھر وہ تمہارے خلاف لڑائی کرتے۔[١٢٥] اب اگر وہ کنارہ کش رہتے ہیں اور لڑائی پر آمادہ نہیں اور تمہیں صلح کی پیش کش کرتے ہیں۔ تو پھر اللہ نے ان پر تمہاری دست درازی کی کوئی گنجائش نہیں رکھی
. پھر ان میں سے ان حضرات کا استثنا کیا جاتا ہے جو کسی ایسی قوم کی پناہ میں چلے جائیں جس سے مسلمانوں کا عہد و پیمان صلح و سلوک ہو تو ان کا حکم بھی وہی ہو گا جو معاہدہ والی قوم کا ہے ، سیدنا سراقہ بن مالک مدلجی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب جنگ بدر اور جنگ احد میں مسلمان غالب آئے اور آس پاس کے لوگوں میں اسلام کی بخوبی اشاعت ہو گئی تو مجھے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ ہے کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر دے کر میری قوم بنو مدلج کی گوشمالی کے لیے روانہ فرمائیں تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا میں آپ کو احسان یاد دلاتا ہوں لوگوں نے مجھ سے کہا خاموش رہ ۔ لیکن { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کہنے دو ، کہو کیا کہنا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ میری قوم کی طرف لشکر بھیجنے والے ہیں میں چاہتا ہوں کہ آپ ان سے صلح کر لیں اس بات پر کہ اگر قریش اسلام لائیں تو یہ بھی مسلمان ہو جائیں گے اور اگر وہ اسلام نہ لائیں تو ان پر بھی آپ چڑھائی نہ کریں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا ان کے ساتھ جاؤ اور ان کے کہنے کے مطابق ان کی قوم سے صلح کر آؤ پس اس بات پر صلح ہو گئی کہ وہ دشمنان دین کی کسی قسم کی مدد نہ کریں اور اگر قریش اسلام لائیں تو یہ بھی مسلمان ہو جائیں } پس اللہ نے یہ آیت اتاری کہ ’ یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی کفر کرو جیسے وہ کفر کرتے ہیں پھر تم اور وہ برابر ہو جائیں پس ان میں سے کسی کو دوست نہ جانو ۔ ‘ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5750/3:ضعیف) یہی روایت ابن مردویہ میں ہے اور ان میں ہی آیت «إِلَّا الَّذِینَ یَصِلُونَ إِلَیٰ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُم مِّیثَاقٌ» ۱؎ (4-النساء:90) نازل ہوئی پس جو بھی ان سے مل جاتا وہ انہی کی طرح پر امن رہتا کلام کے الفاظ سے زیادہ مناسبت اسی کو ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں صلح حدیبیہ کے قصے میں ہے کہ پھر جو چاہتا کفار کی جماعت میں داخل ہو جاتا اور امن پالیتا اور جو چاہتا مدنی مسلمانوں سے ملتا اور عہد نامہ کی وجہ سے مامون ہو جاتا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2731) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ اس حکم کو پھر اس آیت نے منسوخ کر دیا کہ «فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ » ۱؎ (9-التوبۃ:5) ، یعنی ’ جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکین سے جہاد کرو جہاں کہیں انہیں پاؤ ‘ ۔