إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَلَاسِلَ وَأَغْلَالًا وَسَعِيرًا
بلاشبہ ہم نے کافروں کے لیے زنجیریں [٦]، طوق اور بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔
زنجیریں طوق اور شعلے یہاں اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ’ اس کی مخلوق میں سے جو بھی اس سے کفر کرے اس کے لیے زنجیریں ، طوق اور شعلوں والی بھڑکتی ہوئی تیز آگ تیار ہے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «إِذِ الْأَغْلَالُ فِی أَعْنَاقِہِمْ وَالسَّلَاسِلُ یُسْحَبُونَ فِی الْحَمِیمِ ثُمَّ فِی النَّارِ یُسْجَرُونَ» ۱؎ (40-غافر:71-72) ’ جبکہ طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اور بیڑیاں ان کے پاؤں میں ہوں گی اور یہ «حمیم» میں گھسیٹے جائیں گے پھر جہنم میں جلائے جائیں گے ‘ ۔ ان بدنصیبوں کی سزا کا ذکر کر کے اب نیک لوگوں کی جزا کا ذکر ہو رہا ہے کہ ’ انہیں وہ جام پلائے جائیں گے جن کا مشروب کافور نامی نہر کے پانی کا ہو گا ، ذائقہ بھی اعلیٰ ، خوشبو بھی عمدہ اور فائدہ بھی بہتر کافور کی سی ٹھنڈک اور سونٹھ کی سو خوشبو ‘ ۔ کافور ایک نہر کا نام ہے جس سے اللہ کے خاص بندے پانی پیتے ہیں اور صرف اسی سے آسودگی حاصل کرتے ہیں اسی لیے یہاں اسے «ب» سے متعدی کیا اور تمیز کی بنا پر «عَیْناً» پر نصب دیا ، یہ پانی اپنی خوشبو میں مثل کافور کے ہے یا یہ ٹھیک کافور ہی ہے اور «عَیْناً» کا زبر «یشرب» کی وجہ سے ہے پھر اس نہر تک انہیں آنے کی ضرورت نہیں یہ اپنے باغات ، مکانات ، مجلسوں اور بیٹھکوں میں جہاں بھی جائیں گے اس لے جائیں گے اور وہیں وہ پہنچ جائے گی ۔ «تَفْجِیرً» کے معنی روانی اور اجرا کے ہیں ، جیسے آیت «وَقَالُوا لَن نٰؤْمِنَ لَکَ حَتَّیٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ یَنبُوعًا» ۱؎ (17-الإسراء:90) میں اور «وَفَجَّرْنَا خِلَالَہُمَا نَہَرًا» ۱؎ (18-الکھف:33) میں ۔ پھر ان لوگوں کی نیکیاں بیان ہو رہی ہیں کہ جو عبادت اللہ کی طرف سے ان کے ذمہ تھی وہ بجا لاتے تھے بلکہ جو چیز یہ اپنے اوپر کر لیتے اسے بھی بجا لاتے یعنی نذر بھی پوری کرتے ۔ حدیث میں ہے { جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نذر مانے وہ پوری کرے اور جو نافرمانی کی نذر مانے اسے پورا نہ کرے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6696) امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے امام مالک رحمہ اللہ کی روایت سے بیان فرمایا ہے ـ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بھاگتے رہتے ہیں ، کیونکہ قیامت کے دن کا ڈر ہے جس کی گھبراہٹ عام طور پر سب کو گھیر لے گی اور ہر ایک الجھن میں پڑ جائے گا مگر جس پر اللہ کا رحم و کرم ہو ، زمین و آسمان تک ہول رہے ہوں گے ۔ «استطار» کے معنی پھیل جانے والی اور اطراف کو گھیر لینے والی کے ہیں ، یہ نیکوکار اللہ کی محبت میں مستحق لوگوں پر اپنی طاقت کے مطابق خرچ بھی کرتے رہتے تھے اور «لا» کی ضمیر کا مرجع بعض لوگوں نے طَعام کو بھی کہا ہے لفظاً زیادہ ظاہر بھی یہی ہے ، یعنی طَعام کی محبت اور خواہش ضرورت کے باوجود راہ اللہ غرباء اور حاجت مندوں کو دے دیتے ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَآتَی الْمَالَ عَلَیٰ حُبِّہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:177) یعنی ’ مال کی چاہت کے باوجود اسے راہ اللہ دیتے رہتے ہیں ‘ ۔ اور فرمان ہے «لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّیٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبٰونَ» ۱؎ (3-آل عمران:92) یعنی ’ تم ہرگز بھلائی حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنی چاہت کی چیزیں راہ اللہ خرچ نہ کرو ‘ ۔ نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ { سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیمار ہوئے آپ کی بیماری میں انگور کا موسم آیا جب انگور بکنے لگے تو آپ کا دل بھی چاہا کہ میں انگور کھاؤں ، آپ کی بیوی صاحبہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے ایک درہم کے انگور منگائے ، آدمی لے کر آیا اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک سائل بھی آ گیا اور اس نے آواز دی کہ میں سائل ہوں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” یہ سب اسی کو دے دو “ ، چنانچہ دے دیئے گئے پھر دوبارہ آدمی گیا اور انگور خرید لایا اب کی مرتبہ بھی سائل آ گیا اور اس کے سوال پر اسی کو سب کے سب انگور دے دیئے گئے ، لیکن اب کی مرتبہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے سائل کو کہلوا بھیجا کہ اگر اب آئے تو تمہیں کچھ نہ ملے گا چنانچہ تیسری مرتبہ ایک درہم کے انگور منگوائے گئے ۔ } (بیہقی) اور صحیح حدیث میں ہے کہ { افضل صدقہ وہ ہے جو تو اپنی صحت کی حالت میں ، مال کی محبت ، امیری کی چاہت اور افلاس کے خوف کے باوجود راہ اللہ دے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1419) یعنی مال کی حرص ، حب بھی اور چاہت و ضرورت بھی ہو پھر بھی راہ اللہ اسے قربان کر دے ۔ یتیم اور مسکین کسے کہتے ہیں ؟ اس کا مفصل بیان پہلے گزر چکا ہے ، قیدی کی نسبت سعید رحمہ اللہ وغیرہ تو فرماتے ہیں مسلمان اہل قبلہ قیدی مراد ہے ، لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کا فرمان ہے اس وقت قیدیوں میں سوائے مشرکین کے اور کوئی مسلم نہ تھا ، اور اسی کی تائید اس حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدری قیدیوں کے بارے میں اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو فرمایا تھا کہ { ان کا اکرام کرو چنانچہ کھانے پینے میں صحابہ رضی اللہ عنہم خود اپنی جان سے بھی زیادہ ان کا خیال رکھتے تھے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد غلام ہیں ، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ بسبب آیت کے عام ہونے کے اسی کو پسند کرتے ہیں اور مسلم مشرک سب کو شامل کرتے ہیں ، غلاموں اور ماتحتوں کے ساتھ احسان و سلوک کرنے کی تاکید بہت سی احادیث میں آئی ہے ، بلکہ رسول اکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت اپنی امت کو یہی ہے کہ { نمازوں کی نگہبانی کرو اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور ان کا پورا خیال رکھو } ۔ ۱؎ (مسند احمد:3/117:صحیح) یہ اس نیک سلوک کا نہ تو ان لوگوں سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ ، بلکہ اپنے حال سے گویا اعلان کر دیتے ہیں کہ ہم تمہیں صرف راہ اللہ دیتے ہیں اس میں ہماری ہی بہتری ہے کہ اس سے رضائے رب اور مرضی مولا ہمیں حاصل ہو جائے ، ہم ثواب اور اجر کے مستحق ہو جائیں ۔ سعید رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” اللہ کی قسم یہ بات وہ لوگ منہ سے نہیں نکالتے یہ دلی ارادہ ہوتا ہے جس کا علم اللہ کو ہے تو اللہ نے اس ظاہر فرما دیا کہ اور لوگوں کی رغبت کا باعث بنے ، یہ پاک باز جماعت خیرات و صدقات کر کے اس دن کے عذاب اور ہولناکیوں سے بچنا چاہتی ہے جو ترش رو ، تنگ و تاریک اور طویل طویل ہے ، ان کا عقیدہ ہے کہ اس بنا پر اللہ ان پر رحم کرے گا اور اس محتاجی اور بے کسی والے دن ہماری نیکیاں ہمارے کام آئیں گی “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے «عَبُوسً» کے معنی تنگی والا اور «قَمْطَرِیرً» کے معنی طویل طویل مروی ہے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” کافر کا منہ اس دن بگڑ جائے گا اس کے تیوری چڑھ جائے گی اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان سے عرق بہنے لگے گا جو مثل روغن گندھک کے ہو گا “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ہونٹ چڑھ جائیں گے اور چہرہ سمٹ جائے گا “ ، سعید اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم کا قول ہے کہ ” بوجہ گھبراہٹ اور ہولناکیوں کے صورت بگڑ جائے گی پیشانی تنگ ہو جائے گی “ ۔ ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں برائی اور سختی والا دن ہو گا ، لیکن سب سے واضح بہتر نہایت مناسب بالکل ٹھیک قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے ۔ «قَمْطَرِیرً» کے لغوی معنی امام ابن جریر رحمہ اللہ نے شدید کے کئے ہیں یعنی بہت سختی والا ۔ ان کی اس نیک نیتی اور پاک عمل کی وجہ سے اللہ نے انہیں اس دن کی برائی سے بال بال بچا لیا اور اتنا ہی نہیں بلکہ انہیں بجائے ترش روئی کے خندہ پیشانی اور بجائے دل کی ہولناکی کے اطمینان و سرور قلب عطا فرمایا ، خیال کیجئے کہ یہاں عبارت میں کس قدر بلیغ تجانس کا استعمال کیا گیا ہے ۔ اور جگہ ہے «وُجُوہٌ یَوْمَئِذٍ مٰسْفِرَۃٌ ضَاحِکَۃٌ مٰسْتَبْشِرَۃٌ» ۱؎ (80-عبس:38-39) ’ اس دن بہت سے چہرے چمکدار ہوں گے ، جو ہنستے ہوئے اور خوشیاں مناتے ہوئے ہوں گے ‘ ۔ یہ ظاہر ہے کہ جب دل مسرور ہو گا تو چہرہ کھلا ہوا ہو گا ۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی لمبی حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کبھی کوئی خوشی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ چمکنے لگتا اور ایسا معلوم ہوتا گویا چاند کا ٹکڑا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4418) ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی لمبی حدیث میں ہے کہ { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے چہرہ خوشی سے منور ہو رہا تھا اور مکھڑے مبارک کی رگیں چمک رہی تھیں } الخ ۔ ، ۱؎ (صحیح بخاری:3555) پھر فرماتا ہے ’ ان کے صبر کے اجر میں انہیں رہنے سہنے کو وسیع جنت پاک زندگی اور پہننے اوڑھنے کو ریشمی لباس ملا ‘ ۔ ابن عساکر میں ہے کہ ابو سلیمان دارانی رحمہ اللہ کے سامنے اس سورت کی تلاوت ہوئی جب قاری نے اس آیت کو پڑھا تو آپ نے فرمایا انہوں نے دنیاوی خواہشوں کو چھوڑ رکھا تھا پھر یہ اشعار پڑھے ۔ «کَمْ قَتِیل لِشَہْوَۃٍ وَأَسِیر» «أُفّ مِنْ مُشْتَہًی خِلَاف الْجَمِیل» *** «شَہَوَات الْإِنْسَان تُورِثہُ الذٰلّ» *** «وَتُلْقِیہ فِی الْبَلَاء الطَّوِیل» افسوس شہوت نفس نے اور بھلائیوں کے خلاف برائیوں کی چاہت نے بہت سے گواہوں کا گلا گھونٹ دیا اور کئی ایک کو پابجولاں کر دیا ، نفسانی خواہشیں ہی ہیں جو انسان کو بدترین ذلت و رسوائی اور بلا و مصیبت میں ڈال دیتی ہیں ۔