سورة البقرة - آیت 47

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اے بنی اسرائیل! میری اس نعمت کو بھی یاد کرو جو میں نے تمہیں عطا کی تھی اور تمہیں تمام اقوام [٦٦] عالم سے بڑھ کر نوازا تھا

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

بنی اسرائیل کے آباؤ اجداد پر اللہ تعالٰی کے انعامات بنی اسرائیل کے آباؤ اجداد پر جو نعمت الٰہیہ انعام کی گئی تھی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان میں سے رسول ہوئے ان پر کتابیں اتریں انہیں ان کے زمانہ کے دوسرے لوگوں پر مرتبہ دیا گیا جیسے فرمایا «وَلَــقَدِ اخْتَرْنٰہُمْ عَلٰی عِلْمٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ» ( 44 ۔ الدخان : 32 ) یعنی انہیں ان کے زمانے کے ( اور لوگوں پر ) ہم نے علم میں فضیلت دی ۔ اور فرمایا «وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَاءَ وَجَعَلَکُمْ مٰلُوْکًا ڰ وَّاٰتٰیکُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ» (5-المائدۃ:20) یعنی موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جو تم پر انعام کی گئی ہے تم میں اس نے پیغمبر پیدا کئے تمہیں بادشاہ بنایا اور وہ دیا جو تمام زمانے کو نہیں دیا ۔ تمام لوگوں پر فضیلت ملنے سے مراد ان کے زمانے کے تمام اور لوگ ہیں اس لیے کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے یقیناً افضل ہے اس امت کی نسبت فرمایا گیا ہے «کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ» ( 3 ۔ آل عمران : 110 ) تم بہتر امت ہو جو لوگوں کے لیے بنائی گئی ہو تم بھلائیوں کا حکم کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا ۔ مسانید اور سنن میں مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم سترویں امت ہو اور سب سے بہتر اور بزرگ ہو ۔ (مسند احمد:447/4:حسن) اس قسم کی اور بہت سی احادیث کا ذکر ان شاءاللہ «کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ» ( 3 ۔ آل عمران : 110 ) کی تفسیر میں آئے گا اور کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں پر خاص قسم کی فضیلت مراد ہے جس سے ہر قسم کی فضیلت لازم نہیں آتی ، رازی نے یہی کہا ہے مگر یہ غور طلب بات ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی فضیلت اور تمام امتوں پر ہے اس لیے کہ انبیاء کرام انہی میں سے ہوتے چلے آئے ہیں لیکن اس میں بھی غورو خوض کی ضرورت ہے اس لیے کہ اس طرح کے اطلاق کے اجتماعی اعزاز کو اگلے لوگوں پر بھی ہوتا ہے ۔ اور حقیقت میں اگلے انبیاء ان میں شمار نہ تھے جیسے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور نبی کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو ان سب کے بعد ہوئے لیکن تمام مخلوق سے افضل تھے اور جو تمام اولاد آدم علیہ السلام کے سردار ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ، «صلوٰۃ اللہ وسلامہ علیہ» ۔