يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں [١٢] کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر [١٣] ہیں۔ اس پر تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہیں۔ اللہ انہیں جو حکم دے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے [١٤] اور وہی کچھ کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
ہمارا گھرانہ ہماری ذمہ داریاں سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ارشاد ربانی ہے کہ ’ اپنے گھرانے کے لوگوں کو علم و ادب سکھاؤ ‘ ۔ (مستدرک حاکم:494/2:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” اللہ کے فرمان بجا لاؤ ، اس کی نافرمانیاں مت کرو ، اپنے گھرانے کے لوگوں کو ذکر اللہ کی تاکید کرو تاکہ اللہ تمہیں جہنم سے بچا لے “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اللہ سے ڈرو اور اپنے گھر والوں کو بھی یہی تلقین کرو “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اللہ کی اطاعت کا انہیں حکم دو اور نافرمانیوں سے روکتے رہو ، ان پر اللہ کے حکم قائم رکھو اور انہیں احکام اللہ بجا لانے کی تاکید کرتے رہو ، نیک کاموں میں ان کی مدد کرو اور برے کاموں پر انہیں ڈانٹو ڈپٹو “ ۔ ضحاک و مقاتل رحمہا اللہ فرماتے ہیں ” ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اپنے رشتے ، کنبے کے لوگوں کو اور اپنے لونڈی ، غلام کو اللہ کے فرمان بجا لانے کی اور اس کی نافرمانیوں سے رکنے کی تعلیم دیتا رہے “ ۔ مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ { جب بچے سات سال کے ہو جائیں انہیں نماز پڑھنے کو کہتے سنتے رہا کرو ، جب دس سال کے ہو جائیں اور نماز میں سستی کریں تو انہیں مار کر دھمکا کر پڑھاؤ } ، یہ حدیث ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے ۔ (مسند احمد:404/3:صحیح) جہنم کا ایندھن فقہاء کا فرمان ہے کہ ” اسی طرح روزے کی بھی تاکید اور تنبیہ اس عمر سے شروع کر دینی چاہیئے تاکہ بالغ ہونے تک پوری طرح نماز روزے کی عادت ہو جائے ، اطاعت کے بجا لانے اور معصیت سے بچنے رہنے اور برائی سے دور رہنے کا سلیقہ پیدا ہو جائے “ ۔ ان کاموں سے تم اور وہ جہنم کی آگ سے بچ جاؤ گے جس آگ کا ایندھن انسانوں کے جسم اور پتھر ہیں ، ان چیزوں سے یہ آگ سلگائی گئی ہے ، پھر خیال کر لو کہ کس قدر تیز ہو گی ؟ پتھر سے مراد یا تو وہ پتھر ہے جن کی دنیا میں پرستش ہوتی رہی جیسے اور جگہ ہے «إِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ أَنتُمْ لَہَا وَارِدُونَ» ۱؎ (21-الانبیاء:98) ’ تم اور تمہارے معبود جہنم کی لکڑیاں ہو ‘ ، یا گندھک کے نہایت ہی بدبودار پتھر ہیں ۔ ایک رویات میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیکُمْ نَارًا وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ» ۱؎ (66-التحریم:6) الخ کی تلاوت کی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بعض اصحاب رضی اللہ عنہم تھے جن میں سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا جہنم کے پتھر دنیا کے پتھروں جیسے ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ، اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ جہنم کا ایک پتھر ساری دنیا کے تمام پتھروں سے بڑا ہے “ ، انہیں یہ سن کر غشی آ گئی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دل پر ہاتھ رکھا تو وہ دل دھڑک رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی کہ اے شیخ کہو «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» اس نے اسے پڑھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جنت کی خوشخبری دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے کہا : کیا ہم سب کے درمیان صرف اسی کو یہ خوشخبری دی جا رہی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ، دیکھو قرآن میں ہے «ذٰلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِی وَخَافَ وَعِیدِ» ۱؎ (14-ابراھیم:14) یہ اس کے لیے ہے جو میرے سامنے کھڑا ہونے اور میرے دھمکیوں کا ڈر رکھتا ہو “ } ، یہ حدیث غریب اور مرسل ہے ۔ جہنم کے فرشتے پھر ارشاد ہوتا ہے ’ اس آگ سے عذاب کرنے والے فرشتے سخت طبیعت والے ہیں جن کے دلوں میں کافروں کے لیے اللہ نے رحم رکھا ہی نہیں اور جو بدترین ترکیبوں میں بڑی بھاری سزائیں کرتے ہیں ، جن کے دیکھنے سے بھی پتہ پانی اور کلیجہ چھلنی ہو جائے ‘ ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جب دوزخیوں کا پہلا جتھا جہنم کو چلا جائے گا تو دیکھے گا کہ پہلے دروازے پر چار لاکھ فرشتے عذاب کرنے والے تیار ہیں جن کے چہرے بڑے ہیبت ناک اور نہایت سیاہ ہیں ، کچلیاں باہر کو نکلی ہوئی ہیں ، سخت بے رحم ہیں ، ایک ذرے کے برابر بھی اللہ نے ان کے دلوں میں رحم نہیں رکھا ، اس قدر جسیم ہیں کہ اگر کوئی پرند ان کے ایک کھوے سے اڑ کر دوسرے کھوے تک پہنچنا چاہے تو کئی مہینے گزر جائیں ، پھر دروازے پر انیس فرشتے پائیں گے جن کے سینوں کی چوڑائی ستر سال کی راہ ہے پھر ایک دروازے سے دوسرے دروازے کی طرف دھکیل دیئے جائیں گے ، پانچ سو سال تک گرتے رہنے کے بعد دوسرا دروازہ آئے گا وہاں بھی اسی طرح ایسے ہی اور اتنے ہی فرشتوں کو موجود پائیں گے اسی طرح ہر ایک دروازہ پر یہ فرشتے اللہ کے فرمان کے تابع ہیں ادھر فرمایا گیا ادھر انہوں نے عمل شروع کر دیا ان کا نام زبانیہ ہے اللہ ہمیں اپنے عذاب سے پناہ دے آمین “ ۔ قیامت کے دن کوئی عذر قبول نہیں قیامت کے دن کفار سے فرمایا جائے گا کہ ’ آج تم بے کار عذر پیش نہ کرو ، کوئی معذرت ہمارے سامنے نہ چل سکے گی ، تمہارے کرتوت کا مزہ تمہیں چکھنا ہی پڑے گا ‘ ۔ پھر ارشاد ہے کہ ’ اے ایمان والو تم سچی اور خالص توبہ کرو جس سے تمہارے اگلے گناہ معاف ہو جائیں میل کچیل دھل جائے ، برائیوں کی عادت ختم ہو جائے ‘ ۔ نعمان بن بشیر رحمہ اللہ نے اپنے ایک خطبے میں بیان فرمایا کہ ” لوگو ! میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ خالص توبہ یہ ہے کہ انسان گناہ کی معافی چاہے اور پھر اس گناہ کو نہ کرے “ ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم490/2:ضعیف) اور روایت میں ہے پھر اس کے کرنے کا ارادہ بھی نہ کرے ، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے قریب مروی ہے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی آیا ہے جو ضعیف ہے اور ٹھیک یہی ہے کہ وہ بھی موقوف ہی ہے ۔ (مسند احمد:446/1:ضعیف) «وَاللہُ اَعْلَمُ»