فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنفِقُوا خَيْرًا لِّأَنفُسِكُمْ ۗ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
لہٰذا جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرتے [٢٤] رہو اور سنو اور اطاعت کرو اور (اپنے مال) خرچ کرو۔ یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے اور جو شخص اپنے نفس [٢٥] کی حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔
اللہ سے طاقت کے مطابق ڈرنا پھر فرماتا ہے ’ اپنے مقدور بھر اللہ کا خوف رکھو اس کے عذاب سے بچنے کی کوشش کرو ‘ ۔ بخاری و مسلم میں ہے { جو حکم میں کروں اسے اپنی مقدور بھر بجا لاؤ , جس سے میں روک دوں رک جاؤ } ۔ (صحیح بخاری:7288) بعض مفسرین کا فرمان ہے کہ سورۃ آل عمران کی آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مٰسْلِمُونَ» ۱؎ (3-آل عمران:102) کی ناسخ یہ آیت ہے ، یعنی پہلے فرمایا تھا ’ اللہ تعالیٰ سے اس قدر ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیئے ‘ ، لیکن اب فرما دیا کہ ’ اپنی طاقت کے مطابق ‘ ۔ چنانچہ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” پہلی آیت لوگوں پر بڑی بھاری پڑی تھی اس قدر لمبے قیام کرتے تھے کہ پیروں پر ورم آ جاتا تھا اور اتنے لمبے سجدے کرتے تھے کہ پیشانیاں زخمی ہو جاتی تھیں “ ۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار کر تخفیف کر دی اور بھی بعض مفسرین نے یہی فرمایا ہے اور پہلی آیت کو منسوخ اور اس دوسری آیت کو ناسخ بتایا ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار بن جاؤ , ان کے فرمان سے ایک انچ ادھر ادھر نہ ہٹو , نہ آگے بڑھو , نہ پیچھے سرکو ، نہ امر کو چھوڑو , نہ نہی کے خلاف کرو ، جو اللہ نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے رشتہ داروں کو , فقیروں ، مسکینوں کو اور حاجت مندوں کو دیتے رہو ، اللہ نے تم پر احسان کیا تم دوسری مخلوق پر احسان کرو تاکہ اس جہان میں بھی اللہ کے احسان کے مستحق بن جاؤ اور اگر یہ نہ کیا تو دونوں جہان کی بربادی اپنے ہاتھوں آپ مول لو گے ‘ ۔ «وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ» ۱؎ (59-الحشر:9) کی تفسیر اس آیت میں گزر چکی ہے ۔ ’ جب تم کوئی چیز راہ اللہ دو گے اللہ اس کا بدلہ دے گا ہر صدقے کی جزا عطا فرمائے گا ، تمہارا مسکینوں کے ساتھ سلوک کرنا گویا اللہ کو قرض دینا ہے ‘ ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ کون ہے ؟ جو ایسے کو قرض دے جو نہ تو ظالم ہے ، نہ مفلس ، نہ نادہندہ ‘ } ۔ (صحیح مسلم:758) پس فرماتا ہے ’ وہ تمہیں بہت کچھ بڑھا چڑھا کر پھیر دے گا ‘ ، جیسے سورۃ البقرہ میں بھی فرمایا ہے «فَیُضَاعِفَہُ لَہُ أَضْعَافًا کَثِیرَۃً» ۱؎ (2-البقرۃ:245) ’ کئی کئی گنا بڑھا کر دے گا ‘ ۔ ساتھ ہی خیرات سے تمہارے گناہ معاف فرما کر دے گا ، اللہ بڑا قدر دان ہے ، تھوڑی سی نیکی کا بہت بڑا اجر دیتا ہے ، وہ بردبار ہے ، درگزر کرتا ہے ، بخش دیتا ہے ، گناہوں سے اور لغزشوں سے چشم پوشی کر لیتا ہے ، خطاؤں اور برائیوں کو معاف فرما دیتا ہے ، چھپے کھلے کا عالم ہے اور وہ غالب اور باحکمت ہے ، ان اسماء حسنیٰ کی تفسیر کئی کئی مرتبہ اس سے پہلے گزر چکی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور لطف و رحم سے سورۃ التغابن کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔