يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ ۚ وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے ایمان والو! تمہاری بیویوں میں سے اور تمہاری اولاد میں سے بعض [٢١] تمہارے دشمن ہیں لہٰذا ان سے ہشیار رہو۔ اور اگر تم معاف کرو [٢٢] اور درگزر کرو اور انہیں بخش دو تو اللہ یقیناً بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے
اللہ کی یاد اور اولاد و مال کی محبت ارشاد ہوتا ہے کہ ’ بعض عورتیں اپنے مردوں کو اور بعض اولاد اپنے ماں باپ کو یاد اللہ اور نیک عمل سے روک دیتی ہے جو درحقیقت دشمنی ہے ‘ ۔ جس سے پہلے تنبیہ ہو چکی ہے کہ «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَن ذِکْرِ اللہِ وَمَن یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ» ۱؎ (63-المنافقون:9) ’ ایسا نہ ہو تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں یاد اللہ سے غافل کر دیں ، اگر ایسا ہو گیا تو تمہیں بڑا گھاٹا رہے گا ‘ ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ ’ ان سے ہوشیار رہو ، اپنے دین کی نگہبانی ان کی ضروریات اور فرمائشات کے پورا کرنے پر مقدم رکھو ‘ ۔ بیوی بچوں اور مال کی خاطر انسان قطع رحمی کر گزرتا ہے اللہ کی نافرمانی پر تل جاتا ہے ان کی محبت میں پھنس کر احکام اسلامی کو پس پشت ڈال دیتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” بعض اہل مکہ اسلام قبول کر چکے تھے مگر زن و فرزند کی محبت نے انہیں ہجرت سے روک دیا ، پھر جب اسلام کا خوب افشأ ہو گیا ، تب یہ لوگ حاضر ہوئے دیکھا کہ ان سے پہلے کے مہاجرین نے بہت کچھ علم دین حاصل کر لیا ہے ، اب جی میں آیا کہ اپنے بال بچوں کو سزا دیں جس پر یہ فرمان ہوا کہ «وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللہَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (64-التغابن:14) ، یعنی ’ اب درگزر کرو ، آئندہ کے لیے ہوشیار رہو ، اللہ تعالیٰ مال و اولاد دے کر انسان کو پرکھ لیتا ہے کہ معصیت میں مبتلا ہونے والے کون ہیں اور اطاعت گزار کون ہیں ؟ اللہ کے پاس جو اجر عظیم ہے تمہیں چاہیئے کہ اس پر نگاہیں رکھو ‘ ۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے «زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبٰ الشَّہَوَات مِنْ النِّسَاء وَالْبَنِینَ وَالْقَنَاطِیر الْمُقَنْطَرَۃ مِنْ الذَّہَب وَالْفِضَّۃ وَالْخَیْل الْمُسَوَّمَۃ وَالْأَنْعَام وَالْحَرْث ذَلِکَ مَتَاع الْحَیَاۃ الدٰنْیَا وَاَللَّہ عِنْدہ حُسْن الْمَآب» ۱؎ (3-آل عمران:14-15) ، یعنی ’ بطور آزمائش کے لوگوں کے لیے دنیوی خواہشات یعنی بیویاں اور اولاد ، سونے چاندی کے بڑے بڑے لگے ہوئے ڈھیر ، شائستہ گھوڑے ، مویشی ، کھیتی کی محبت کو زینت دی گئی ہے مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان ہے اور ہمیشہ رہنے والا اچھا ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے ‘ ۔ اولاد ایک فتنہ بھی مسند احمد میں ہے کہ { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ فرما رہے تھے کہ سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما لمبے لمبے کرتے پہنے آ گئے ، دونوں بچے کرتوں میں الجھ الجھ کر گرتے پڑتے آ رہے تھے یہ کرتے سرخ رنگ کے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظریں جب ان پر پڑیں تو منبر سے اتر کر انہیں اٹھا کر لائے اور اپنے سامنے بٹھا لیا پھر فرمانے لگے : ” اللہ تعالیٰ سچا ہے اور اس کے رسول نے بھی سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اولاد فتنہ ہیں ، میں ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے دیکھ کر صبر نہ کر سکا آخر خطبہ چھوڑ کر انہیں اٹھانا پڑا “ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3774،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند میں ہے { سیدنا اشعت بن قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کندہ قبیلے کے وفد میں ، میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا : ” تمہاری کچھ اولاد بھی ہے “ ۔ میں نے کہا : ہاں ، اب آتے ہوئے ایک لڑکا ہوا ہے ، کاش کہ اس کے بجائے کوئی درندہ ہی ہوتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” خبردار ، ایسا نہ کہو ، ان میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور انتقال کر جائیں تو اجر ہے “ ، پھر فرمایا : ” ہاں ہاں یہی بزدلی اور غم کا سبب بھی بن جاتے ہیں یہ بزدلی اور غم و رنج بھی ہیں ۔ “ } (مسند احمد:211/5:صحیح اسناد ضعیف) بزاز میں ہے { اولاد دل کا پھل ہے اور یہ بخل و نامردی اور غمگینی کا باعث بھی ہے } ۔ (مسند بزار:1819:ضعیف) طبرانی میں ہے { تیرا دشمن صرف وہی نہیں جو تیرے مقابلہ میں کفر پر جم کر لڑائی کے لیے آیا کیونکہ اگر تو نے اسے قتل کر دیا تو تیرے لیے باعث نور ہے اور اگر اس نے تجھے قتل کر دیا تو قطعاً جنتی ہو گیا ۔ پھر فرمایا : ” شاید تیرا دشمن تیرا بچہ ہے ، جو تیری پیٹھ سے نکلا ، پھر تجھ سے دشمنی کرنے لگا ، تیرا پورا دشمن تیرا مال ہے ، جو تیری ملکیت میں ہے ، پھر دشمنی کرتا ہے “ } ۔ (طبرانی:3445:ضعیف)